کشمیریوں کی آزادی کا بیس کیمپ جو ملک پاکستان کی مداخلت کی وجہ سے اسکی نو آبادیاتی کالونی منظر پیش کر رہاہے، حکمران طبقہ کی لوٹ ما ر سے خطہ کے کشمیری عوام بد ترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،سرکاری ہسپتالوں کی فیسوں میں اضافہ غریب و متوسط طبقے کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے، عوام پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھ نہیں پا رہے، سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر حضرات کی توجہ پرائیویٹ کلینک پرہوتی ہے، ہسپتالوں کے اندر سے بھی یہ لوگ باہر اپنے قائم کردہ میڈیکل سٹور پر موجود دوا لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، رضا انور، اسد ہمایوں، راؤف احمد، کامران بیگ، گلنواز چودھری، بابر چودھری کا این ایس ایف کے اجلاس سے خطاب

اتوار 21 اکتوبر 2012 14:28

میرپور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔21اکتوبر۔ 2012ء) جے کے این ایس ایف کے رضا انور، اسد ہمایوں، راؤف احمد، کامران بیگ، گلنواز چودھری، بابر چودھری نے این ایس ایف کے منعقدہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہکشمیریوں کی آزادی کا بیس کیمپ جو ملک پاکستان کی مداخلت کی وجہ سے اسکی نو آبادیاتی کالونی منظر پیش کر رہاہے ۔حکمران طبقہ کی لوٹ ما ر کی وجہ سے اس خطہ کے کشمیری عوام بد ترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں آزاد کشمیر کے سرکاری ہسپتالوں میں فیسوں میں اضافہ نے غریب و متوسط طبقے کو زندہ درگور کرنے کا مکمل بندوبست کر دیا ہے اس خطہ کے عوام پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش میں ہیں۔

سرکاری ہسپتالوں کے اندر پہلے ہی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں بمشکل ہی کوئی دوا مریضوں کودستیاب ہو حکمران طبقات اور بیوروکریسی کے کرنا دھرنا یہ ساری سہولیات لوٹ کر لے جاتے ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹر حضرات کی توجہ بھی اپنے پرائیویٹ کلینک پرہوتی ہے اور ہسپتالوں کے اندر سے بھی یہ لوگ باہر اپنے قائم کردہ میڈیکل سٹور پر موجود دوا لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

غیر معیاری دوا ساز کمیشن مافیا کمپنیاں کروڑوں کماتی ہیں غیر معیاری ادویات کی وجہ سے سینکڑوں انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں، وزارت صحت بھی صرف اخباری بیان تک اس کی تردید کر دیتی ہے اور اس خطہ کے حکمران پاکستان کی کٹھ پتلی انتظامیہ کے توسط سے اقتدار پر براجمان فلاحی ریاست کے خواب دیکھتے رہتے ہیں، مگر عملاً اس خطہ کی کشمیری عوام کو زندہ درگور کرنے میں برابر کے شریک ہیں رہی بات بجلی کی لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمہ اور بجلی میں خود کفیل ہونے کی تو اس خطہ کے دم چھلا وزیر ایسے بیانات اقتدار کو بچانے کیلئے دیتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔

یہ خطہ منگلا ڈیم کے بنتے ہی خود کفیل ہو گیا تھا، 350میگاواٹ مکمل ضرورت ہے اس خطہ کی منگلا ڈیم 1200میگاواٹ پیدا کرتا ہے باقی 850میگاواٹ منگلا کی بجلی کون سا جن اڑا لے جاتا ہے اس کا جواب وزیر صاھب ہی دے سکتے ہیں پورے آزاد کشمیر میں تقریباً 3500میگاواٹ کے قریب بجلی کی پیداوارہے ر ہی بات محکمہ برقیات کی تو وہ بچارے کیا کرسکتے ہیں اصل مگر مچھ تو واپڈا پاکستان ہے جس کی لوٹ مار پر بچارے برقیات والوں کو بھی پردے ڈالنا پڑتے ہیں جہاں اس خطہ کا صدر اور وزیراعظم اور اسمبلی بے اختیار ہوں وہاں محکمہ برقیات کیا کرے گا۔

اس خطہ کے مفاد پر ست حکمران جب پاکستان کی طرف سے عطا کردہ اقتدار کے بادشاہ ہوتے ہیں تو وہ خود بھی اور غیروں کو بھی عیاشیاں کرواتے ہیں مگر یونہی ان کے اقتدار کی لنکا ڈوبتی ہے تو ان کو کشمیریوں کے حقوق یاد آ جاتے ہیں آخرکشمیریوں کو اس تعفن زدہ معاشرے سے نکالنے کا فریضہ کون سرانجام دے گا۔ آج شہریوں کے حقوق کی پاسبا ن انجمن تاجراں تین گروپوں میں تقسیم ہو کر اپنی طاقت بڑھانے کے چکروں میں ہے۔

میرپور کے شہری اجتماعی سوچ اپنانے کے بجائے ذاتی مفادات کی جنگ کا ایندھن بن چکے۔ ماضی میں جو میرپور بار ڈگری کالج کے باغیور طلبا ایک دوسرے کے دست و بازو ہوتے تھے مگر آج صرف داتیات لی جنگ باقی ہے میرپور کے عوام کا مسیحا کون بنے گا اس کا جواب میرپور کی عوام پر چھوڑتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جے کے این ایس ایف کے رضا انور، اسد ہمایوں، راؤف احمد، کامران بیگ، گلنواز چودھری، بابر چودھری نے این ایس ایف کے منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

متعلقہ عنوان :