ڈرون حملے نہیں ہونے چاہئیں ، کوئی اپنے ملک کی سلامتی کو داوٴ پر نہیں لگا سکتا، اپنی خود مختاری پر ناز ہے،ڈرون حملے اپنی خود مختاری پر حملہ سمجھتے ہیں ،حکومت جلد ملالہ یوسفزئی کے والدین کو ان سے ملانے کا بندوبست کر رہی ہے، ملالہ کی حالت بتدریج بہتر ہو رہی ہے، صرف ملالہ نہیں ، زخمی ہونے والی دو لڑکیاں شازیہ اور کائنات تیزی سے صحتیاب ہو رہی ہیں، ملالہ کے واقعہ کے بعد 90 فیصد پاکستانی دہشت گردوں سے نفرت کرتے ہیں، ملالہ اکیلی نہیں ، ساری دنیا کے امن پسند لوگ ان کی پشت پر کھڑے ہیں، ملالہ کے والدین کی مرضی ہے وہ پاکستان رہیں یا پاکستان سے باہر،ہم یہی چا ہتے ہیں وہ اپنی دھرتی پہ رہیں، اپنی دھرتی پر ہی انسان خوش رہتا ہے، صوبائی وزیرِ اطلاعات میاں افتخار حسین کی لندن میں صحافیوں سے گفتگو

بدھ 24 اکتوبر 2012 14:19

لندن (اُردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین، آئی این پی ۔24اکتوبر 2012ء) صوبائی وزیرِ اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ ڈرون حملے نہیں ہونے چاہیئیں ، کوئی بھی اپنے ملک کی سلامتی کو دا پر نہیں لگا سکتا، ہم اپنی خود مختاری پر ناز کرتے ہیں،ڈرون حملے ہم اپنی خود مختاری پر حملہ سمجھتے ہیں ،حکومت جلد ملالہ یوسفزئی کے والدین کو ان سے ملانے کا بندوبست کر رہی ہے، ملالہ سے نہیں مل سکا،ان کے معالجوں نے کہاکہ ملالہ کی حالت بتدریج بہتر ہو رہی ہے، صرف ملالہ نہیں ، زخمی ہونے والی دو لڑکیاں شازیہ اور کائنات بھی تیزی سے صحتیاب ہو رہی ہیں، خوشی کی بات ہے کہ اللہ نے ان کی زندگی بچائی،ملالہ کے واقعہ کے بعد 90 فیصد پاکستانی دہشت گردوں سے نفرت کرتے ہیں، ملالہ اکیلی نہیں ، ساری دنیا کے امن پسند لوگ ان کی پشت پر کھڑے ہیں، ملالہ ایک سوچ کا نام ہے، ملالہ کے والدین کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان سے باہر،ہم یہی چا ہتے ہیں وہ اپنی دھرتی پہ رہیں، اپنی دھرتی پر ہی انسان خوش رہتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو لندن میں پاکستانی سفارتخانے کی ایک تقریب میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے ۔وہ برمنگھم کے کویئن الیزبتھ ہسپتال میں زیرِ علاج ملالہ یوسفزئی کی عیادت کے بعد لندن لوٹے تھے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ ملالہ سے نہیں مل سکے لیکن ان کے معالجوں نے انہیں بتایا کہ ملالہ کی حالت بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف ملالہ بلکہ ان کے ساتھ زخمی ہونے والی دو لڑکیاں شازیہ اور کائنات بھی تیزی سے صحتیاب ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نہ صرف یہ خوشی کی بات ہے کہ خدا نے ان کی زندگی بچائی، دوسرا یہ کہ ان کی وجہ سے ایک تحریک ابھر رہی ہے۔ یعنی ملالہ کے واقعہ کے بعد پاکستان کے نوے فیصد لوگ دہشت گردوں سے نفرت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ اکیلی نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کے امن پسند لوگ ان کی پشت پر کھڑے ہیں۔ ملالہ صرف ایک لڑکی کا نام نہیں بلکہ ایک سوچ کا نام ہے، ایک تحریک کا نام ہے۔

وہ امن کی تحریک ہے، تعلیم کی تحریک اور ساری دنیا کو پر امن بنانے کی تحریک ہے۔ تمام پاکستان نے اس چھوٹی سی لڑکی کی تحریک اور ہمت کو سراہا ہے سوائے ان چند مفاد پرست دہشت گرودں کے جنہوں نے اسے الگ رنگ دینے کی کوشش کی۔ لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے وہ بہت ڈر کے اس واقعے کے خلاف بولتے ہیں، جرات سے نہیں بول سکتے، یہی امن پسند قوتوں کی پہچان ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ملالہ کے والدین کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان سے باہر۔ تاہم ہم یہی چاہیں کہ وہ اپنی دھرتی پہ رہیں کہ اپنی دھرتی پر ہی انسان خوش رہتا ہے۔ لیکن زندگی میں مجبوریاں بھی آتی ہیں، اس لیے اس حوالے سے جو بھی صورتحال ہوئی ہم ملالہ کے خاندان کا ساتھ دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے ہیں، ڈرون اٹیک نہیں ہونے چاہیئیں اور یہ اس بنیاد پر کہ کوئی بھی اپنے ملک کی سلامتی کو دا پر نہیں لگا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنی خود مختاری پر ناز کرتے ہیں اور ڈرون اٹیک ہم اپنی خود مختاری پر حملہ سمجھتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہم ڈرون اٹیک کی مخالفت کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کو نہ مارا جائے۔ جو لوگ آج معصوم معصوم کر رہے ہیں یہ لوگ دراصل دہشت گردوں کو راستہ دینا چاہتے ہیں۔ لہذا ہم یہ کہتے ہیں کہ ڈرون ٹیکنالوجی پاکستان کو دی جائے، پاکستان خود یہ فیصلہ کرے کہ اسے کہاں حملہ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب ہی وقت ہے کہ طالبان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نہیں کہ یہ واقعہ اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔ کئی لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ ملالہ کا واقعہ اپنی اہمیت کھو بیٹھے۔انہوں نے کہا ک پہلے اگر کوئی ٹارگٹ تھا تو وہ عوامی نیشنل پارٹی تھی جو ان کا کھل کر ٹارگٹ تھی اب حالت یہ ہے کہ پاکستان کی اکثریت اس کے سامنے کھڑی ہے۔ اب دہشت گرد کس کس کو ماریں گے۔