ملک سے پولیو کا مکمل خاتمہ پوری قوم کیلئے چیلنج ہے، آنے والی نسلوں کو مہلک مرض سے بچانے کیلئے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر تمام سیاسی، مذہبی جماعتیں، مساجد کے امام صاحبان اور معاشرے کے تمام طبقات کو متحد ہوکر اس قومی پروگرام کے لئے کوششوں میں کردار ادا کرنا چاہئے،وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات قمرزمان کائرہ کا پولیوسے بحالی کے جذبہ کے عنوان سے دستاویزی فلموں کے اجراء کی تقریب سے خطاب

بدھ 24 اکتوبر 2012 23:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔24اکتوبر۔ 2012ء) وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات قمرزمان کائرہ نے ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کو پوری قوم کے لئے ایک چیلنج قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ آنے والی نسلوں کو اس مہلک مرض سے بچانے کے لئے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر تمام سیاسی، مذہبی جماعتیں، مساجد کے امام صاحبان اور معاشرے کے تمام طبقات متحد ہوکر اس قومی پروگرام کے لئے کوششوں میں کردار ادا کرنا چاہئے۔

وہ بدھ کو یہاں پولیو سے بچاؤ کے قومی دن پر پولیوسے بحالی کے جذبہ کے عنوان سے دستاویزی فلموں کے اجراء کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر وزیراعظم کی معاون خصوصی اور پولیو کے خاتمے کے لئے وزیراعظم کی فوکل پرسن شہناز وزیرعلی، وزیراعظم کے پولیو مانیٹرنگ سیل کے نیشنل کوآرڈینیٹر ڈاکٹر الطاف بوسن، یونیسیف کے پاکستان میں سربراہ مسٹر ڈینس، عالمی ادارہ صحت کی ڈاکٹر مریم ملک، توثیق حیدر اور مظہر نثار نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

وزیراطلاعات قمرزمان کائرہ نے پولیو کے مہلک مرض کے خاتمے کے لئے پولیو ویکسین پلانے کے تمام عمل میں شامل افرادکو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ صدرمملکت آصف علی زرداری نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لئے شروع کردہ مشن کو آگے بڑھایا اور وہ پوری وابستگی اور پختہ عزم سے پاکستان کو پولیو سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔

شہید بی بی نے اپنی صاحبزادی اور اس وقت پولیو کے خاتمے کے لئے یونیسیف کی سفیر آصفہ بھٹو زرداری کو پولیو کے قطرے پلاکر اس مہم کا پاکستان میں آغاز کیاتھا کیونکہ وہ پاکستان میں بچوں کو اس مرض سے بچانے کی خواہش رکھتی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے لیڈی ہیلتھ وزیٹرز اور پولیو کے خاتمے کے لئے دو بڑی مہمات کا آغاز کیاتھا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت میں موجودہ جمہوری حکومت اس مشن کو شہید قائد کی بصیرت کی روشنی میں آگے بڑھا رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ سوات کے بچے حمزہ کو پولیو کے قطرے نہ پلانے پر جس مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور دستاویزی فلم سے اس کی زندگی میں آنے والی تکلیف کی جھلک پاکستان میں بسنے والے سب افراد تک پہنچے گی جس سے وہ اس کرب کو محسوس کرسکیں گے جس سے متاثرہ بچہ اور اس کے خاندان کے افراد گزرتے ہیں لیکن حمزہ اور اس کے والد اکبرخان کی ہمت اور علاج کے بعد اس کی زندگی میں آنے والی خوشی دراصل ایک امید کا پیغام ہے۔

انہوں نے کہاکہ پولیو کے قطرے پلانے سے اس معذوری سے ہم اپنے بچوں کو بچا سکتے ہیں، یہ کسی کے بچے کی نہیں بلکہ ہر کسی کے اپنے بچے کو بچانے کا معاملہ ہے جس سے کوتاہی نہیں برتی جاسکتی۔ یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں بلکہ ایک قومی معاملہ ہے، یہ ہماری نسلوں کے تحفظ اوران کے صحت کا معاملہ ہے۔ بدقسمتی سے کلچر، مذہب اور روایات کا نام استعمال کرکے ایسے پروگراموں کی مخالفت کی کوشش کی گئی لیکن معاشرہ کی اکثریت نے اس سوچ کو مسترد کیا، ہمیں ایسی سوچ کی مذمت کرنی چاہئے۔

دین فلاح اور بھلائی کا نام ہے۔ ہمارے دین کی تعلیم یہی ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے گویا تمام انسانیت کو بچایا۔ اگر بنگلہ دیش اور سعودی عرب میں اس بیماری کو ختم کیاجاسکتا ہے تو پاکستان میں ہم سب مل کر ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہاکہ یہ معاشرے کے تمام طبقات کی اخلاقی نہیں بلکہ قانونی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو معذور ہونے سے بچائیں، یہ ہمارا دینی فریضہ ہے۔

انہوں نے شہناز وزیرعلی اوران کی ٹیم کو مبارکباد دی اور ملک بھر میں بچوں کو اس موذی مرض سے بچانے کے لئے کوشاں افرادکی خدمات کو سراہا۔ شہناز وزیرعلی نے کہاکہ صدرمملکت آصف علی زرداری نے اس پرچم کو تھاما ہے جو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملک سے پولیو کے خاتمے کے لئے اٹھایا تھا، شہید بی بی نے سماجی شعبہ میں بہتری کے ایجنڈہ کے تحت اس مشن کا آغاز کیا جسے سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی، موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، صوبائی حکومتیں، وزراء آگے لے کر بڑھ رہے ہیں۔

تین کروڑ چالیس لاکھ بچوں تک سال میں آٹھ مرتبہ پہنچنا ایک بہت بڑا کام ہے جس میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار مردو خواتین کوششیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پولیو کے قطرے بار بار پلوانا اس لئے ضروری ہے تاکہ یہ وائرس جو بعض علاقوں میں اگر کہیں رہ گیا ہو، تو ہمارے بچوں کو متاثر نہ کرسکے۔ انہوں نے کہاکہ ہم سب نے پولیو کے ملک سے خاتمے کا عزم کررکھا ہے، علماء کرام نے بھی اس مہم میں قدم بہ قدم ہمارا ساتھ دیا ہے، تمام مساجد کے امام بھی اس میں تعاون کررہے ہیں۔

اب اس بیماری کو پولیو ویکسین کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے اور ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں کیونکہ دنیا میں تین ممالک میں یہ مرض اب موجود ہے جن میں پاکستان اور افغانستان بھی شامل ہیں۔ یونیسیف کے مسٹرڈینس نے کہاکہ 1988ء میں دنیا میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ تھی جبکہ 2012ء میں یہ تعداد پانچ ہزار سامنے آئی، یہ ایک واضح تبدیلی ہے۔

یہ بیماری تین ممالک میں ہے جس میں پاکستان اور افغانستان شامل ہیں۔ جنوری سے اکتوبر تک اس سال پاکستان میں پولیو کے سینتالیس کیس سامنے آئے جو ساٹھ فیصد سے زائد کی کمی کو ظاہرکرتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان پولیو سے پاک ملک بننے میں انتہائی قریب ہے۔ ڈاکٹر بوسن نے کہاکہ پاکستان کا اکثریتی علاقہ پولیو سے پاک ہوچکا ہے تاہم بعض علاقوں میں رسائی کی بناء پر کیس سامنے آئے ہیں، ان علاقوں میں رسائی کے عمل کو بہتر بنا کر اس مرض کا مکمل خاتمہ ممکن ہے اور اس ضمن میں معاشرہ کے تمام طبقات کو بھرپور تعاون کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر مریم ملک نے کہاکہ پولیو سے متاثرہ بچوں کی بحالی کے پروگرام کے تحت چار سو بچوں کو امدادی آلات کے ذریعے اس قابل بنایاگیا کہ وہ چل پھر سکیں۔ اس کام میں اسلامی ریلیف آرگنائزیشن نے تعاون کیا۔

متعلقہ عنوان :