جمہوریت کی کامیابی کا انحصار عوام کی سرگرم شرکت سے ہی ممکن ہے، بھارتی آئین میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے، بھارت میں پنچائتی نظام کامیابی سے چل رہا ہے، خطے میں غربت کے خاتمے کیلئے باہمی تعاون کو فروغ دینا ہو گا، غریب ترین آبادی کا40 فیصد جنوبی ایشیاء میں مقیم ہے، غربت اور دیگر مسائل کا حل نکالنا سارک ممبر ممالک کی حکومتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے،بھارتی لوک سبھا کی سپیکر میرا کمار کا ”جنوبی ایشیاء میں جمہوریت کیلئے پارلیمنٹریز کا بامقصدکردار،، پر خطاب

پیر 5 نومبر 2012 21:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔5نومبر۔2012ء) بھارتی لوک سبھا کی سپیکر میرا کمار نے کہا ہے کہ جمہوریت کی کامیابی کا انحصار عوام کی سرگرم شرکت سے ہی ممکن ہے، بھارتی آئین میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے، بھارت میں پنچائتی نظام کامیابی سے چل رہا ہے،خطے میں غربت کے خاتمے کیلئے باہمی تعاون کو فروغ دینا ہو گا، غریب ترین آبادی کا40 فیصد جنوبی ایشیاء میں مقیم ہے، غربت اور دیگر مسائل کا حل نکالنا سارک ممبر ممالک کی حکومتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

وہ منگل کو یہاں ایک مقامی ہوٹل میں سارک سپیکر کانفرنس میں ”جنوبی ایشیاء میں جمہوریت کیلئے پارلیمنٹریز کا بامقصدکردار،، کے موضوع پر مباحثے سے خطاب کر رہی تھیں اس موقع پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی ، سری لنکا کی سپیکر چندیما ویرا کوڈے، مالدیب کے سپیکر عبداللہ شاہد، جے یو آئی کے سینیٹر عبدالغفور حیدری، آسیہ نام اور سارک ممالک کے دیگر مندوبین نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

بھارتی لوک سبھا کی سپیکر نے اپنے خطاب میں کہا کہ خطے کے ممالک کی شناختی مشترکات بے شمار ہیں، مسائل بھی یکساں ہیں، ایک ایسا خطہ جس میں دنیا کی کل آبادی کی20 فیصد آبادی مقیم ہو اس کے مسائل کا حل ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے خطے کے ممالک کو ایک طرف غربت کا سامنا ہے اور دوسری طرف غیر مساوی ترقی کا ایشو ہے۔ دنیا کی کل غربت کا40فیصد اس خطے سے تعلق رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امید ہے سب اتفاق کریں گے کہ جمہوریت کی کامیابی کا انحصار عوام کی سرگرم شرکت سے ممکن ہے۔ عوامی نمائندے اور قانون ساز عوام سے ہی طاقت حاصل کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ جمہوری نظام میں گورننس کرنے اور سرگرم کرنے کی ضرورت ہے، غربت کے خاتمے اور سماج کے کمزور طبقے کو بااختیار بنانے کیلئے ادارہ جاتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے اقدامات جمہوری عمل میں ان کی شرکت میں اضافے کا باعث اور فیصلہ سازی میں شریک کرنے کا ذریعہ بنیں گے جو ان کی معاشی اور معاشرتی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔

اس حوالے سے سارک ممالک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایسے اقدامات اٹھانے ہونگے جس سے ایسے طبقوں کو بھی ترقی کے مواقع میسر آئیں، جنہیں اس کے مواقع دستیا ب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں ہمارے ملک کا آئین کمزور طبقات کے تحفظ اور تمام طبقات کیلئے مساوی مواقع کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ممکن بنانے کیلئے ان کی نشستیں مخصوص کی گئی ہیں جبکہ آئین میں اقلیتوں کیلئے ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں ایک ایسا ماحول بھی بنانے کیلئے کوشاں ہیں، جس میں تاجر اور صنعتکار بھی سرکار کی طرح غریب طبقات کو ملازمتوں کی ٹریننگ فراہم کرنے کیلئے آگے آئیں۔ اقلیتوں کیلئے مسلم کمیشن قبائل کیلئے نیشنل کمیشن، نیشنل کمیشن آف وومن سمیت دیگر کمیشن بھی بنائے گئے ہیں جو ان طبقات کی ترقی کیلئے سفارشات مرتب کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں73ویں اور74ویں ترامیم اہم سنگ میل ہیں جن کے ذریعے گراس روٹ گورننس کو ادارہ جاتی شکل دی گئی ہے انہوں نے کہا کہ بھارت میں3ملین سے زائد منتخب عوامی نمائندے ہیں جن کی ایک تہائی تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔

ہمارے پنچائتی نظام کی حیثیت پرائمری یونٹ کی ہے جو بے شمار حکومتی منصوبوں پر عمل درآمد کراتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں معذور افراد کے حوالے سے بے شمار قوانین بنائے گئے جو ان کی قومی زندگی میں شرکت یقینی بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ممبران پر مشتمل فورمز بنائے گئے ہیں جو ممبران پارلیمنٹ اور مختلف امور کے ماہرین کے درمیان رابطوں کاکام کرتے ہیں تاکہ ایوان کے اندر ہونے والے مباحثوں اور قانون سازی کو مزید بامعنی اور بامقصد بنایا جاسکے۔

یوتھ، بچوں، گلوبل وارمنگ، اور ماحولیاتی بند پلوں، آبادی اور شعبہ صحت پر بھی پارلیمانی فورمز بنائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی پارلیمنٹ نے1989 ء میں آئین میں51ویں ترمیم کے ذریعے ووٹرز کی عمر21سے کم کرکے18 سال کر دی جس کی وجہ سے جمہوری نظام میں نوجوان کی شرکت بڑھانے میں بہت مدد ملی ، انہوں نے کہا کہ 2005ء میں بھارتی پارلیمنٹ نے اطلاعات تک عوام کی رسائی یقینی بنانے کیلئے رائٹ ٹو فریڈم ایکٹ منظور کیا جس سے عوامی احتساب کو ممکن بنا کر حکومت اور سرکاری اداروں میں عوامی اعتماد کو بڑھائے، ہماری پارلیمنٹ تبدیل ہوتے ہوئے حقائق، وقت کے تقاضوں اور عوام کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے بیدار ہے، پارلیمنٹ کے عوامی ادارے کو عوام کے قریب لانے اور پارلیمنٹ کی کارروائی عوام تک پہنچانے کیلئے دونوں ایوانوں نے اپنے خود مختار ٹی وی چینل قائم کر دئیے ہیں۔

عوام کو جمہوری تاریخ اور پارلیمنٹ کے کردار سے روشناس کرانے کیلئے ایک شاہکار پارلیمنٹری میوزیم قائم کیا گیا ہے ۔ پارلیمانی لائبریری میں ایک چلڈرن کارنر قائم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی کامیاب جمہوریت کا اصل امتحان یہ ہوتا ہے کہ وہ عوامی مسائل اور تحفظات کو کس حد تک دور کرنے میں کامیاب ہے۔ ملائیشیا کی عوامی مجلس کے سپیکر عبداللہ شاہد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تمام سارک ممالک کیلئے قابل فخر بات ہے کہ آج تمام ممبر ممالک میں عوام کی منتخب جمہوریتیں برسراقتدار ہیں اور تسلسل کے ساتھ انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بظاہر پرسکون حالات ہیں لیکن زہر سطح بہت سارے عوامل کار فرما ہیں، عدم مساوات، مختلف گروپوں کے اختلافات اور وسائل پر مخصوص قوتوں کا موقف قابل تشویش ہے ۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں بامقصد شرکت کو کس طرح یقینی بنایا جاسکتا ہے جب عوام پر محسوس کرتے ہوں کہ وہ حکومت کا حصہ نہیں بلکہ ان پر حکمرانی کی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ سرگرم جمہوری نظام میں عوامی شرکت کو یقینی بنانا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ساؤتھ ایشیاء میں بہت سارے مشترکات اور تضادات ہیں، ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے درمیان تعلقات صرف سرگرم عوامی شرکت سے ممکن ہو گئے ہیں۔ تعلقات تنہائی میں پروان نہیں چڑھ سکتے۔ پارلیمنٹ ایک مرکزی ادارہ ہے جو عوامی خواہشات اور امنگوں کا مظہر ہوتا ہے، عوامی نمائندے عوامی امنگوں کی ترجمانی صرف اس صورت کر سکتے ہیں جب ان کا گراس روٹ لیول پر عوام سے رابطہ ہو، ہمارے مسائل سادہ نہیں، جنوبی ایشیاء میں ہمیں دہشت گردی ، انتہاء پسندی، غربت، بے روز گاری، صحت کی سہولیات کی کمی، جہالت، شرح خواندگی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے یکساں مسائل کا سامنا ہے۔

ان تمام مسائل سے ہم مضبوط متحد اور جمہوری ابروچ سے ہی نمٹ سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ امن وامان کے قیام اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ سے ہی جمہوریت کے ثمرات حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ جمہوریت نظام میں عوامی شرکت یقینی بنانا ممبران پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے، ہماری فتح کا دارومدار اتحاد میں ہے۔ اس ایسوسی ایشن کے ذریعے سارک ممالک کے درمیان عوامی رابطے میں اضافہ سب کے مفاد میں ہیں۔

انہوں نے کہ وقت آگیا ہے کہ ہم آگے بڑھ کر چیلنجز سے نمٹیں بجائے اس کے چیلنجز ہماری جانب پیش قدمی کریں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولاناعبدالغفور حیدری نے کہا کہ اگر جمہوری اصولوں پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد نہ کیا جائے تو نام نہاد جمہوریتیں عوام کے مسائل کم کرنے کی بجائے ان میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ رکن اسمبلی آسیہ نام نے کہا کہا کہ پاکستانی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی یقینی بنانا اہم اقدام ہے جسے خطے کے دوسرے ممالک اپنا سکتے ہیں۔ توقع پر دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔