لاہو رمیں سویڈن کی 70 سالہ سماجی کارکن خاتون پر قاتلانہ حملے سے ملک میں فلاحی کاموں میں مصروف غیر ملکی امدادی کارکن مزید عدم تحفظ کا شکار ہوں گے ‘ خدشہ ہے کہ وہ جاری امدادی منصوبوں پر کام نہ روک دیں‘ لوگوں کو احساس نہیں کہ غریب اور ضرورت مند پاکستانی تعلیم اور صحت کی سرگرمیوں کے بند ہونے سے کتنے متاثر ہونگے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف کی وائس آف امریکہ سے بات چیت

بدھ 5 دسمبر 2012 14:13

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی این پی۔5دسمبر 2012ء) ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے لاہور میں سویڈن کی خاتون فلاحی کارکن پر فائرنگ کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے فلاحی کاموں میں مصروف غیر ملکیوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔سویڈن کی برگیٹا ایمی کو لاہور میں مسلح افراد نے پیر کو اس وقت فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا جب وہ اپنے گھر کے باہر پہنچی تھیں۔

لگ بھگ 3 دہائیوں سے وہ پاکستان میں فلاحی کاموں میں مصروف تھیں اور ان کی عمر تقریبا 70 برس ہے۔ لیکن لاہور پولیس نے ان کے بارے میں اب تک کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں۔ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ایچ آر سی پی کی سربراہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سویڈن کی خاتون پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعے سے ملک میں فلاحی کاموں میں مصروف غیر ملکی امدادی کارکن مزید عدم تحفظ کا شکار ہوں گے اور خدشہ ہے کہ وہ جاری امدادی منصوبوں پر کام روک دیں۔

(جاری ہے)

یہ لوگوں کو احساس نہیں کہ وہ پاکستانی جو سب سے ضرورت مند ہیں، جو غریب ہیں اور جن کو تعلیم اور صحت کی ضرورت ہے ان پر اثر ہوتا ہے جب اس طرح کے کام بند کیے جاتے ہیں۔دریں اثنا پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی گزشتہ روز بیان میں سویڈش خاتون فلاحی کارکن پر حملے کی مذمت کی تھی۔لاہور میں گزشتہ سال ایک امریکی شہری ڈاکٹر وائن سٹین کو نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا تھا جس کی ذمہ داری بعد ازاں القاعدہ نے قبول کی تھی۔ وہ پاکستان میں ایک امریکی ترقیاتی کمپنی سے وابستہ تھے۔وائن سٹین کے اہل خانہ کی طرف سے اغوا کاروں سے متعدد بار ان کی خرابی صحت اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی رہائی کی اپیلیں کی جا چکی ہیں لیکن تاحال وہ بازیاب نہیں ہو سکے