نیب کے پاس صرف کرپشن کے کیسوں کی تحقیقات کا اختیار ہے ، ارسلان افتخار کیس نیب کیس بنتا ہے نہ مجھے اس میں کوئی دلچسپی رہی ، میری تقرری میں ملک ریاض کا کوئی کردار نہیں ، حکومت سے پلاٹ مانگا ضرور تھا مگر ملا نہیں ،ملک میں ریگولیٹری فریم ورک کمزور ہونے کی وجہ سے کرپشن ہورہی ہے ، ریگولیٹر فرہم ورک کو مضبوط کرناہوگا ورنہ ملک ٹوٹ جائے گا ، عدالتیں ہمارے ماتحت نہیں آتیں، ہم نے ثبوت عدالتوں کو فراہم کرنے ہوتے ہیں ، نیا احتساب قانون لانے کی حمایت نہیں کرتا ،جو قانون 12سال سے چل رہاہے اس سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ، خواہش ہے کوئی بڑا کام کر کے دکھاؤں ،قومی احتساب بیورو کے چیئرمین ایڈمرل(ر)فصیح بخاری کاانٹرویو

جمعرات 6 دسمبر 2012 23:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔6دسمبر۔ 2012ء) قومی احتساب بیورو(نیب)کے چیئرمین ایڈمرل(ر)فصیح بخاری نے کہاہے کہ نیب کے پاس صرف کرپشن کے کیسوں کی تحقیقات کا اختیار ہے ، ارسلان افتخار کیس نیب کا کیس بنتاہی نہیں نہ میری اس کیس میں کوئی دلچسپی رہی ، میری تقرری میں بحریہ ٹاوٴن کے سابق سربراہ ملک ریاض کا کوئی کردار نہیں ، میں نے حکومت سے پلاٹ مانگا ضرور تھا مگر ملا نہیں ،ملک میں ریگولیٹری فریم ورک کمزور ہونے کی وجہ سے کرپشن ہورہی ہے ، ریگولیٹر فرہم ورک کو مضبوط کرناہوگا ورنہ ملک ٹوٹ جائے گا ، نیا احتساب قانون لانے کی حمایت نہیں کرتا جو قانون 12سال سے چل رہاہے اس سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے، میری خواہش ہے کہ کوئی بڑا کام کر کے دکھاؤں ۔

جمعرات کی شب ایک ٹی وی انٹرویو میں چیئر مین نیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ترک کمپنی کارکے کیخلاف تحقیقات جاری ہیں اور رقم کی وصولی کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ عدالتیں ہمارے نیچے نہیں آتیں ہم نے ثبوت عدالتوں کو فراہم کرنے ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت کی جانب سے مجھے کوئی پلاٹ نہیں دیا گیا میں نے پلاٹ مانگا ضرور تھا لیکن مجھے نہیں ملا ۔

انہوں نے کہاکہ میری تقرری صدر نے کی ملک ریاض کو جانتا ضرور ہوں لیکن میری تقرری میں ان کا کوئی کردار نہیں ملک ریاض کو 1997سے جانتاہوں جب میں نیول چیف تھا ۔ا نہوں نے کہاکہ میں خواجہ آصف سے کبھی نہیں ملا ان کا یہ کہنا کہ میں نے 1997میں انہیں کال کرکے ملک ریاض کیخلاف بولنے سے منع کیا تھا درست نہیں میں اس وقت ملک ریاض کے خلاف بولتا تھا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ میری بیٹی طلاق یافتہ ہے جس کے دو بچے ہیں اس نے مرضی سے بحریہ ٹاؤن میں ملازمت کی وہ ایک ذہین لڑکی ہے جو بحریہ ٹاؤن کے پراجیکٹ میں کام کر رہی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ارسلان افتخار کیس نیب کا کیس بنتاہی نہیں نہ ہی مجھے اس کیس میں دلچسپی تھی نیب ارسلان افتخار کیس کی تحقیقات نہیں کر رہا ۔ انہوں نے کہاکہ ملک ریاض کے جاننے والے پولیس افیسر فیصل بشیر میمن کو نیب کی تحقیقاتی ٹیم میں ہم نے شامل نہیں کیا میں فیصل بشیر کو نہیں جانتا نہ ہی کبھی ان سے ملا ہوں ۔ایک سوال پرا نہوں نے کہاکہ نیب کے چیئر مین سکیورٹی اداروں سے ہی کیوں لیے جاتے ہیں اس کا مجھے نہیں معلوم ۔

فصیح بخاری نے کہا کہ میں نے نیوی چھوڑنے کے بعد مختلف اداروں میں کام کیا جس کا مجھے وسیع تجر بہ حاصل ہوا جس کے بعد نیب میں میری تقرری کر دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ریگولیٹری فریم ورک کمزور ہونے کی وجہ سے کرپشن ہورہی ہے ہمیں ریگولیٹر فرہم ورک کو مضبوط کرناہوگا ورنہ ملک ٹوٹ جائے گا ۔ انہوں نے کہاکہ جو ترقیاتی منصوبے لائے جا رہے ہیں اصل کرپشن ان میں ہو رہی ہے ان میں کرپشن کو روکنے کیلئے کئی اقدامات کیے ۔

انہوں نے کہاکہ ریٹائرڈ آرمی آفیسرز کے کیس بھی ہمارے پاس موجود ہیں جن کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اگر کوئی آرمی ایکٹ کا کیس ہوتو آرمی خود اسے دیکھتی ہے اگر آرمی ایکٹ کا کیس نہ ہوتواسے ہم دیکھ لیتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ دس سے بیس فیصد ملٹری آفیسر سے تفتیش کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ نیا احتساب قانون لانے کی حمایت نہیں کرتاکیوں کہ جو قانون 12سال سے چل رہاہے اس سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے اگر اس میں کچھ ترمیم کرنا ضروری ہیں تو صرف ترمیم کی جانی چاہئے نیا قانون لا کر پھر سے نافذ کرنا ٹھیک نہیں ہوگا ۔

ا نہوں نے کہا کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور بہتر پاکستان چاہتے ہیں ۔ فصیح بخاری نے کہا کہ پاکستان میں ریگولیٹری سسٹم تباہ ہو چکاہے پہلے عدالتی نظام حکومت کے کنٹرول میں تھا اب آزاد ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اگر عدلیہ مضبوط ہے تو آپ کا خزانہ مضبوط ہے میری خواہش ہے کہ میں کوئی بڑا کام کر کے دکھاؤں، کوشش کروں گا کرپشن کو جتنا ممکن ہو ختم کیا جا سکے ۔ انہوں نے کہاکہ نیب کے پاس صرف کرپشن کیسوں کی تحقیقات کا اختیار ہے ذمہ داروں کو سزائیں دینا عدالتوں کا کام ہے ہمارے پاس عملے کی شدید قلت ہے ہر کیس پر ایکشن لینا نیب کیلئے مشکل ہو گیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کرپشن کی روک تھام کیلئے عوامی آگاہی مہم سمیت قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہیں ۔