فلاحی اداروں کیلئے بیرون ملک سے آنیوالی امداد میں بدعنوانی ہوتی ہے ، ملک کی ترقی کیلئے میڈیا اور عوام کے رشتے کو مضبوط کرنا ہوگا ، بدعنوانی پر قابو پا کر ملکی وسائل ترقی کیلئے استعمال کیے جا سکتے ہیں ، نیب کے پاس صرف کرپشن کیسوں کی تحقیقات کا اختیار ہے ذمہ داروں کو سزائیں دینا عدالتوں کا کام ہے، عملے کی شدید قلت کے باعث ہر کیس پر ایکشن لینا مشکل ہے، چیئر مین قومی احتساب بیورو ایڈمرل (ر) فصیح بخاری کاانٹرویو

ہفتہ 8 دسمبر 2012 13:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی این پی۔8دسمبر 2012ء) چیئر مین قومی احتساب بیورو(نیب) ایڈمرل (ر) فصیح بخاری نے کہا ہے کہ فلاحی اداروں کیلئے بیرون ملک سے آنے والی امداد میں بدعنوانی ہوتی ہے ، ملک کی ترقی کیلئے میڈیا اور عوام کے رشتے کو مضبوط کرنا ہوگا ، بدعنوانی پر قابو پا کر ملکی وسائل ترقی کیلئے استعمال کیے جا سکتے ہیں ، نیب کے پاس صرف کرپشن کیسوں کی تحقیقات کا اختیار ہے ذمہ داروں کو سزائیں دینا عدالتوں کا کام ہے ہمارے پاس عملے کی شدید قلت ہے جس وجہ سے ہر کیس پر ایکشن لینا مشکل ہے۔

گزشتہ روز اپنے ایک انٹرویو میں فصیح بخاری نے کہا کہ بدعنوانی پر قابو پا کر ملکی وسائل ترقی کیلئے استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان پیسے والا ملک ہے غیر ملکی تاجر یہاں آکر کاروبار کرنا چاہتے ہیں، فلاحی اداروں کیلئے بیرون ملک سے آنے والی امداد میں بدعنوانی ہوتی ہے ، ملک کی ترقی کیلئے میڈیا اور عوام کے رشتے کو مضبوط کرنا ہوگا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ترک جہاز کارکے کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ارسلان افتخار کیس نیب کا کیس بنتاہی نہیں نہ ہی مجھے اس کیس میں دلچسپی تھی نیب ارسلان افتخار کیس کی تحقیقات نہیں کر رہا ۔ انہوں نے کہاکہ ملک ریاض کے جاننے والے پولیس افیسر فیصل بشیر میمن کو نیب کی تحقیقاتی ٹیم میں ہم نے شامل نہیں کیا میں فیصل بشیر کو نہیں جانتا نہ ہی کبھی ان سے ملا ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے نیوی چھوڑنے کے بعد مختلف اداروں میں کام کیا جس کا مجھے وسیع تجر بہ حاصل ہوا جس کے بعد نیب میں میری تقرری کر دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ریگولیٹری فریم ورک کمزور ہونے کی وجہ سے کرپشن ہورہی ہے ہمیں ریگولیٹر فرہم ورک کو مضبوط کرناہوگا ورنہ ملک ٹوٹ جائے گا ۔ انہوں نے کہاکہ جو ترقیاتی منصوبے لائے جا رہے ہیں اصل کرپشن ان میں ہو رہی ہے ان میں کرپشن کو روکنے کیلئے کئی اقدامات کیے ۔

انہوں نے کہاکہ ریٹائرڈ آرمی آفیسرز کے کیس بھی ہمارے پاس موجود ہیں جن کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اگر کوئی آرمی ایکٹ کا کیس ہوتو آرمی خود اسے دیکھتی ہے اگر آرمی ایکٹ کا کیس نہ ہوتواسے ہم دیکھ لیتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ دس سے بیس فیصد ملٹری آفیسر سے تفتیش کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ نیا احتساب قانون لانے کی حمایت نہیں کرتاکیوں کہ جو قانون 12سال سے چل رہاہے اس سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے اگر اس میں کچھ ترمیم کرنا ضروری ہیں تو صرف ترمیم کی جانی چاہئے نیا قانون لا کر پھر سے نافذ کرنا ٹھیک نہیں ہوگا ۔

ا نہوں نے کہا کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور بہتر پاکستان چاہتے ہیں ۔ فصیح بخاری نے کہا کہ پاکستان میں ریگولیٹری سسٹم تباہ ہو چکاہے پہلے عدالتی نظام حکومت کے کنٹرول میں تھا اب آزاد ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اگر عدلیہ مضبوط ہے تو آپ کا خزانہ مضبوط ہے میری خواہش ہے کہ میں کوئی بڑا کام کر کے دکھاؤں کوشش کروں گا کرپشن کو جتنا ممکن ہو ختم کیا جا سکے ۔ انہوں نے کہاکہ نیب کے پاس صرف کرپشن کیسوں کی تحقیقات کا اختیار ہے ذمہ داروں کو سزائیں دینا عدالتوں کا کام ہے ہمارے پاس عملے کی شدید قلت ہے ہر کیس پر ایکشن لینا نیب کیلئے مشکل ہو گیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کرپشن کی روک تھام کیلئے عوامی آگاہی مہم سمیت قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہیں ۔

متعلقہ عنوان :