سال 2012 کا راؤنڈ اپ‘مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کمیشن میں336 کیس درج کئے گئے، انسانی حقوق کمیشن سرینگر کے پاس 37افراد کے لاپتہ ہونے کی شکایات ،42افراد کو مختلف طریقوں سے ہراساں کئے جانے 8افراد کو پاسپورٹ کی فراہمی سے انکار ‘ 6شکایتیں ہسپتال انتظامیہ کی نااہلی اور طبی سہولیات کے فقدان سے متعلق درج ہوئیں، عصمت ریزیوں سے متعلق 7معاملات ‘ آر پار تجارت سے سے متعلق 4شکایات کمیشن کے پاس درج کی گئیں، ریاستی انسانی حقوق کمیشن میں جہاں گمنام قبروں ،حراستی ہلاکتوں اور اسی طرز کے دیگر معاملات کا زیادہ چرچا ہوتا ہے

جمعرات 20 دسمبر 2012 14:32

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی این پی۔20دسمبر 2012ء) 2012میں انسانی حقوق اور دیگر نوعیت کی شکایات کے حوالے سے ریاستی انسانی حقوق کمیشن میں 336معاملات درج کئے گئے ہیں۔میڈیا کو دستیاب اعداد وشمار کے مطابق سال2012میں انسانی حقوق کمیشن سرینگر کے پاس حقوق پامالیوں کو لے کر 336مقدمات درج کئے گئے۔ان مقدمات میں 37افراد کے لاپتہ ہونے کی شکایات ،42افراد کو مختلف طریقوں سے ہراساں کئے جانے ،8افراد کو پاسپورٹ کی فراہمی سے انکار جبکہ 6شکایتیں اسپتال انتظامیہ کی نااہلی اور طبی سہولیات کے فقدان سے متعلق درج کی گئی ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن میں 2012میں عصمت ریزیوں سے متعلق 7معاملات درج کئے گئے۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ آر پار تجارت سے متعلق مسائل بھی انسانی حقوق کمیشن کے پاس زیر سماعت آگئے ہیں۔

(جاری ہے)

اعداد وشمار کے مطابق رواں برس آر پار تجارت سے متعلق 4شکایات کمیشن کے پاس درج کی گئیں۔ ریاستی انسانی حقوق کمیشن میں جہاں گمنام قبروں ،حراستی ہلاکتوں اور اسی طرز کے دیگر معاملات کا زیادہ چرچا ہوتا ہے وہیں سال2012میں کمیشن کے سامنے سرکاری نوکریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد پنشن نہ ملنے پر بھی شکایات درج کی گئی ہیں جن کی سماعت جاری ہے۔

رواں برس کے آخیر تک ایسے تین معاملات کمیشن میں درج کئے گئے ہیں جبکہ سیکورٹی بندوبست کے حوالے سے 10،اراضی تنازعہ پر3شکایات ،زیر حراست ہلاکت کا ایک کیس ،غیر قانونی تعمیر سے متعلق ایک شکایت ،تحصیلدار سرنکوٹ کے خلاف ایک شکایت ،شادی شدہ خاتون کے نان و نفقہ سے متعلق ایک شکایت ،مہاجر الاؤنس سے متعلق ایک شکایت موصول ہوئی ہیں۔حقوق کمیشن کے پاس وادی میں قائم کئی یتیم خانوں میں زیرپرورش بچوں کے استحصال کی تین شکایتیں بھی درج کی گئی ہیں۔

اعداد وشمار کے مطابق سال2012کے دوران درج کی گئی336شکایات میں سے 133شکایتیں مختلف محکموں اور افراد کیخلاف درج کی گئیں جبکہ 203شکایتیں ہلاکتوں،ایس آر او 43پر عمل درآمد نہ کئے جانے اور اسکولی بچوں کی گرفتاری کے علاوہ پپر گیس کے استعمال سے متعلق بھی شکایات میں شامل ہیں۔حقوق کمیشن کے پاس مختلف نوعیت کی شکایات درج کئے جانے کے حوالے سے وادی کے سرگرم حقوق کارکن اور انٹرنیشنل فورم فار جسٹس و ہیومن رائٹس فورم چیئرمین محمد احسن انتو کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح کے کمیشن کے پاس گذشتہ کئی برسوں سے لوگ شکایات درج کرتے ہیں چونکہ یہاں فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق پامالیوں کا معاملہ اولیت درجہ کا ہے اس وجہ سے دیگر معاملات پر زیادہ چرچا نہیں ہوتا تھا۔

انہوں نے کہاکہ اب لوگوں میں انسانی حقوق کے حوالے سے بیداری پائی جاتی ہے اسی لئے وہ زیادہ تر کمیشن یا ایسے ہی مقامی و بین الاقوامی اداروں کے پاس انصاف طلب کرنے کیلئے جاتے ہیں۔تاہم احسن انتو کا خیال ہے کہ سرکاری حقوق کمیشن کے حد اختیار میں صرف کیسوں کو نپٹانے کیلئے سفارشات پیش کرنے کا ہی اختیار ہے جبکہ ان سفارشات پر عمل درآمد صرف حکومت کے ہی دائرہ اختیار میں ہے تاہم ان سفارشات کو بعد میں ردی کی نذر ہی کیا جاتا ہے۔

اس دوران انسانی حقوق کمیشن کے سیکریٹری طارق بانڈے نے بات کرتے ہوئے کہاکہ عوامی بیداری کے باعث اب کمیشن کے پاس زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق معاملات بھی آرہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ یہ حوصلہ افزاء بات ہے کہ اب عام لوگ گھریلو تشدد ،اسکولوں،سرکاری محکمہ جات اور دیگر اداروں سے متعلق بھی اپنی شکایات کا ازالہ کرانے کیلئے کمیشن سے رجوع کرتے ہیں۔

سیکریٹری کمیشن کا کہنا تھا کہ موجودہ سربراہ کی قیادت میں کمیشن نے کئی ایسے معاملات جن میں سیکورٹی ،ماحولیات ،تعلیمی ادارے ،اور اس طرح کے دیگر اشوز کو صحیح معنوں میں از خود ایڈرس کیا جس سے عوامی اعتماد بڑھ گیا اور اب لوگ دیگر اداروں کے پاس اپنی شکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے حقوق کمیشن سے ہی رجوع کرتے ہیں اور یہ رجحان حوصلہ افزاء ہے۔انہوں نے کہاکہ انسانی حقوق کمیشن انصاف کے متلاشی افراد کو حتی المقدور سستا انصاف فراہم کرتا ہے اسی لئے عوام کو بھی مختلف معاملات میں کمیشن سے استفادہ کرنا چاہئے۔

متعلقہ عنوان :