پاکستان حالت جنگ میں ہے،اہل قلم طبقہ انتہاء پسندی اور دہشت گردی کیخلاف قلم کے ہتھیار کو موثر طور پر استعمال کریں، امن اور محبت کا پیغام پھیلانے کیلئے اہل قلم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ،ادیب اور دانشورومعاشرے کا اہم طبقہ اور قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں ،ادب اور جمہوریت کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے، حکومت نے نہایت خندہ پیشانی اور حوصلے سے ہر قسم کی تنقید برداشت کی ، وزیراعظم پرویز اشرف کابین الاقوامی اہل قلم کانفرنس سے خطاب

جمعرات 10 جنوری 2013 22:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔10جنوری۔2013ء) وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہاہے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے،اہل قلم طبقہ انتہاء پسندی اور دہشت گردی کیخلاف قلم کے ہتھیار کو موثر طور پر استعمال کریں، امن اور محبت کا پیغام پھیلانے کیلئے اہل قلم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ،ادیب اور دانشورومعاشرے کا اہم طبقہ اور قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں ،ادب اور جمہوریت کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے، حکومت نے نہایت خندہ پیشانی اور حوصلے سے ہر قسم کی تنقید برداشت کی ۔

وہ جمعرات کویہاں اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ”ادب اور جمہوریت“ کے عنوان سے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں دو روزہ بین الاقوامی اہل قلم کانفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔ پرویز اشرف نے کہا کہ ادب اور جمہوریت کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے، جمہوریت میں ہر ایک کو اظہار کی آزادی ہوتی ہے، قلم آزاد ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ادبی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے والی ہے، اس جمہوری عرصے کے دوران کسی قسم کی کوئی گھٹن نہیں تھی جبکہ حکومت نے نہایت خندہ پیشانی اور حوصلے سے ہر قسم کی تنقید برداشت کی اور کسی پر کوئی قدغن لگانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی ذرائع ابلاغ، ادیبوں، دانشوروں سمیت کسی طبقے کو کوئی گھٹن محسوس ہونے دی یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ارتقائی عمل سے گزر رہے ہیں، تمام نظام ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے۔ اس ضمن میں برداشت اور صبر و تحمل کا مظاہرہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ برداشت ہو تو معاشرے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہو گی اور نہ ہی کوئی گھٹن ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری حکومت کے دور میں کوئی ایک سیاسی قیدی نہیں تھا، ہم بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔

آگے کی طرف قدم اٹھ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اہل قلم طبقے پر زور دیا کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے اور مثبت قدروں کو اجاگر کرے۔ عوام اور معاشرے میں شعور اجاگر کریں کہ ہم نے شدت پسندی و انتہا پسندی کو ختم اور اپنی ذات سے بالاتر ہو کر دوسروں کا احساس کرنا ہے، یہی جمہوریت ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام مذاہب امن، محبت، برداشت اور میانہ روی کا درس دیتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہر مکتبہ فکر کا اظہار کا اپنا طریقہ ہوتا ہے، اہل قلم نہایت خوش اسلوبی سے سچائی اور لطیف جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری دور میں ادب پروان چڑھتا ہے اور آمریت میں یہ کشمکش اور جدوجہد سے گزرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلا شبہ ادیب اور دانشور معاشرے کے بڑے لوگ اور اہم طبقہ ہوتے ہیں جن سے ہم رہنمائی حاصل کرتے ہیں، یہ وطن اور معاشرے کا خوبصورت چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے، خطے اور دنیا کو اس طبقے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ امن اور محبت کا پیغام پھیلانے کیلئے اہل قلم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ظلم، دہشت گردی اور منفی سوچ کیخلاف سب سے بڑا ہتھیار قلم ہے۔ اہل قلم طبقہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں قلم کے ہتھیار کو موثر طور پر استعمال کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی و انتہا پسندی کیخلاف حالت جنگ میں ہے۔

وزیراعظم نے کانفرنس کے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال میں عوام کے جان و مال کی حفاظت کے حوالے سے ریاست اور معاشرے کی بنیادی ضرورت کو آپ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ اگر کچھ لوگ اس جمہوری نظام کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور اپنی مرضی کا طرز زندگی مسلط کرنے کیلئے کوشاں ہیں تو یہ کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امن کیلئے آپ اپنا کردار موثر انداز میں ادا کریں۔

یہی انتہا پسندی اور دہشت گردی کیخلاف موثر ہتھیار ہے، معاشرے کو آپ کی اشد ضرورت ہے، آپ نے اپنے قلم سے ذہنوں کو تبدیل کرنا ہے، دہشت گردی سمیت موجودہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ انہوں نے اہل قلم طبقے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ قلم اور ذہن کو کوئی قید نہیں کر سکتا اس سے سب نے رہنمائی حاصل کرنا ہوتی ہے۔ سب جماعتیں اور ہر طبقہ فکر کے افراد اہل قلم سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، اہل قلم سانجھے ہیں، آپ پورے ملک کا اثاثہ ہیں، آپ لوگوں میں پاکستان نظر آتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کا قیام شہید ذوالفقار علی بھٹو کا کارنامہ ہے جنہوں نے اہل قلم طبقے کو ادب اور یکجہتی کے فروغ کیلئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا اس کے مثبت اثرات محسوس کئے جا رہے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ اکادمی ادبیات زیادہ منظم انداز میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے اکادمی ادبیات کے آڈیٹوریم کی تعمیر کیلئے 3 کروڑ روپے کی فوری منظوری دینے کا اعلان کیا۔

انہوں نے مستحق ادیبوں اور شاعروں کیلئے 5 ہزار روپے وظیفے کی رقم بڑھا کر کم سے کم ماہانہ اجرت کے برابر کرنے کا بھی اعلان کیا۔ وزیراعظم نے اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام ”کمال فن ایوارڈ“ کی رقم 5 لاکھ روپے سے بڑھا کر 10 لاکھ کرنے اور قومی ادبی ایوارڈ کیلئے ایک لاکھ روپے کی انعامی رقم بڑھا کر 2 لاکھ روپے کرنے کا بھی اعلان کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کا اطلاق آج کی تقریب میں کمال فن اور قومی ادبی ایوارڈ حاصل کرنے والوں پر بھی ہو گا۔

اس موقع پر وزیراعظم نے چیئرمین اکادمی ادبیات کی طرف سے ادارے کی بہتری اور ادیبوں کی فلاح و بہبود کیلئے پیش کردہ تمام مطالبات کی منظوری کا بھی اعلان کیا۔ قبل ازیں وزیراعظم نے اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام کمال فن ایوارڈ، قومی ادبی ایوارڈ، شاہ لطیف بھٹائی اور تصوف ایوارڈ ادیبوں اور دانشوروں میں تقسیم کئے۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں کمال فن ایوارڈ 2010ء ممتاز ادیبہ محترمہ بانو قدسیہ کو دیا گیا۔

شاہ لطیف بھٹائی اور تصوف ایوارڈ 2007ء بدرالدین دھامرہ اور شاہ لطیف بھٹائی تصوف ایوارڈ 2008ء آغا خالد سلیم کی کتاب کو دیا گیا۔ بہترین ادبی کتب پر قومی ادبی ایوارڈ 2009ء کتاب کے ترجمے کی کیٹگری میں آمنہ اصغر، قومی ادبی ایوارڈ 2009ء برائے ہندکو بشیر سوز، قومی ادبی ایوارڈ سال 2009ء برائے ہندکو زبان نادر شاہواری، قومی ادبی ایوارڈ سال 2009ء برائے بلوچی زبان منیر احمد بادینی، قومی ادبی ایوارڈ 2009ء پشتو زبان امین اللہ داؤد زئی، قومی ادبی ایوارڈ 2009ء برائے پنجابی زبان فرخندہ لودھی، قومی ادبی ایوارڈ 2009ء برائے اردو نثر محمود احمد قاضی کو دیا گیا۔

قومی ادبی ایوارڈ 2010ء کتاب کے بہترین ترجمہ پر مسعود اشعر، سرائیکی زبان کی بہترین کتاب پر حبیب موہانہ، بلوچی زبان میں منیر احمد بادینی، سندھی زبان میں پروفیسر ڈاکٹر محمد علی ماہنجی کو دیا گیا۔ اس سے پہلے وفاقی وزیر قومی ورثہ و ہم آہنگی ثمینہ خالد گھرکی نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ حقیقی ادب اور جمہوریت کا چولی دامن کا رشتہ ہے، اہل قلم نے جمہوریت اور حق کی بالادستی کیلئے لازوال کردار ادا کیا ہے اور اس ضمن میں بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ اہل قلم طبقہ کسی قوم کا دماغ کہلانے کا مستحق ہے اس کی سوچ قوم کی سوچ کی عکاس ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی تعمیر و ترقی کیلئے اس طبقہ سے رہنمائی اور مشاورت حاصل کرنا ہو گی۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین عبدالحمید نے ادارے کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ادب اور قومی یکجہتی کے فروغ کیلئے اس ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ قومی ادارہ ملک میں ادب کے فروغ، اہل قلم طبقے کی فلاح و بہبود کیلئے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہل قلم معاشرے میں محبت کا درس دیتے ہیں۔ موجودہ دور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اہل قلم طبقے کو قومی جذبے کے تحت اپنی اقدار کے ساتھ جڑے رہتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کیلئے قوم میں شعور اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے جس سے نہ صرف ملک کی معیشت بلکہ دفاع بھی مستحکم ہو گا۔ انہوں نے اکادمی ادبیات کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایڈیٹوریم کی تعمیر کیلئے 3 کروڑ روپے کی فوری ضرورت ہے۔ چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں ادارے کے دفاتر موجود ہیں لیکن اپنی عمارات اور عملے کیلئے ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہے۔