چیئرمین نیب نے صدر کوخط وزیراعظم کورینٹل پاور کیس سے بچانے کیلئے لکھا ، صدر خط کی بنیاد پرسپریم کورٹ کے ججز کیخلاف کوئی کارروائی تو نہیں کرسکتے مگر اداروں میں تناوٴ بڑھ سکتا ہے،آئینی وقانونی ماہرین اور امریکی میڈیا کا ردعمل ، فصیح بخاری نے خط پرویز اشرف کے خلاف کارروائی کو روکنے کیلئے نہیں لکھا ، سپریم کورٹ کی نیب کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت سے متعلق خط سینئر افسران سے مشاورت کے بعد لکھا گیا،ترجما ن نیب

منگل 29 جنوری 2013 23:04

اسلام آباد/واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔29جنوری۔ 2013ء) آئینی وقانون ماہرین اور امریکی میڈیا نے کہاہے کہ چیئرمین نیب ایڈمرل (ر)فصیح بخاری نے صدرآصف علی زرداری کوخط وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کورینٹل پاور کیس سے بچانے کے لیے لکھا ، آئین کے تحت صدر اس خط کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف کوئی کارروائی تو نہیں کرسکتے مگر اس سے اداروں میں تناوٴ بڑھ سکتا ہے،ادھر نیب کے ترجمان ظفر اقبال نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ فصیح بخاری کی جانب سے خط وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے خلاف کارروائی کو روکنے کے لیے لکھاگیا ہے۔

منگل کوامریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق قانونی ماہرین نے کہاہے کہ آئین کے تحت صدر اس خط کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف کوئی کارروائی تو نہیں کرسکتے مگر اس سے اداروں میں تناوٴ بڑھ سکتا ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی وکلاء کی تحریک کے رہنماء حامد خان نے کہا تھا کہ نیب چیئرمین کا خط دراصل وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو رینٹل پاور کیس سے بچانے کے لیے لکھا گیاتاہم ترجمان نیب نے اس تاثر کو رد کیا کہ فصیح بخاری کی جانب سے خط وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے خلاف کارروائی کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ چیئرمین نیب نے سپریم کورٹ کی نیب کے معاملات میں ”غیر ضروری مداخلت“ سے متعلق صدر مملکت کو خط ادارے کے تمام سینئر افسران کے ساتھ مشاورت کے بعد لکھا ۔ انہوں نے کہاکہ بدعنوانی سے متعلق معاملات کی تحقیقات کرنے والے ادارے کے حکام کی یہ سوچ بن گئی تھی کہ عدالت اعظمی کے بڑھتے ہوئے دباوٴ کے تحت کام کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے قانون کے مطابق یہ نیب چیئرمین کا استحقاق ہے کہ وہ تحقیقات کے احکامات جاری کریں اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج کی بنیاد پر عدالتوں میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کریں۔

ترجمان کے مطابق سپریم کورٹ چیئرمین نیب کو ان اختیارات کو استعمال کرنے نہیں دے رہی تھی اور نیب حکام پر تحقیقات کے حوالے سے دباوٴ ڈالا جا رہا تھا جس کی بنیاد پر یہ خط لکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں سے سپریم کورٹ کی جانب سے نیب کو تحقیقات کے لیے بھیجے جانے والے بدعنوانی سے متعلق کیسز کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے جب کہ ادارے میں عملے کی شدید کمی ہے۔

اگر مجھے تحقیقات کے لیے ایک کی جگہ بیس کیسز دے دیے جائیں اور مجھ سے توقع کی جائے کہ میں 90 دن میں انہیں مکمل کر لوں تو یہ نا انصافی ہو گی۔ پھر عدالت کی طرف سے دباوٴ کہ یہ رپورٹ جمع کرانی ہے۔ یہ درست نہیں۔ آپ کو یہ کرنا چاہیئے تھا اور اگر عدالت کو کچھ پسند نہ آیا تو توہین عدالت کی تلوار الگ سے ہے۔ عدلیہ کے اس رویے سے یہاں ایک ذہن بن چکا تھا کہ شاید اس دباوٴ میں کام کرنا ممکن نہ ہو۔

ظفر اقبال نے کہا کہ عدالتی احکامات کی وجہ سے نیب میں نئی تقرریاں نہیں ہورہی ہیں اور حکومت کے ادارے کے لیے منظور کردہ عملے کا صرف 30 فیصد اس وقت کام کر رہا ہے۔ سابق ایڈمرل فصیح بخاری نے صدر آصف علی زرداری کو اپنے ایک خط میں کہاہے کہ عدالت اعظمیٰ کے پاس نیب کی تحقیقات کی نگرانی کرنے کے ”محدود“ اختیارات ہیں مگر جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں عدالت نیب کو ایسی مخصوص تحقیقات کرنے کا کہہ رہی ہے جس میں سیاستدان ملوث ہوں۔

ان کا الزام تھا کہ سپریم کورٹ، وکلاء کا ایک ٹولہ اور ذرائع ابلاغ مل کر ان کے ادارے کو بدنام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ نے جو طریقہ کار اپنایا ہوا ہے اس میں وہ قانون کے تحت آزادانہ اپنی خدمات سرانجام نہیں دے سکیں گے اور اگر موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ یہ خط ایک ایسے وقت میں لکھا گیا جب سپریم کورٹ نے نیب کو کرائے کے بجلی گھروں میں بدعنوانی کے الزامات میں وزیر اعظم راجا پرویز اشرف اور دیگر 15 افراد کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔