قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے میلینئم گولز اینڈ ڈیولپمنٹ کااجلاس، غربت کے خاتمے ، تعلیم اورصحت کے شعبوں کی بہتری سے متعلق منصوبہ بندی کمیشن اور یو این ڈی پی کی رپورٹ مسترد ، ایڈیشنل سیکرٹری پلاننگ کمیشن کوآئندہ اجلاس میں درست اور تازہ ترین اعداد و شمارپرمبنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت ، کمیٹی کی حکومت کو حاملہ خواتین کو دوران زچگی علاج معالجے کی سہولت پہنچانے کیلئے بلوچستان اور دور دراز علاقوں میں ایئر ایمبولینس کا نظام متعارف کرانے کی سفارش

منگل 12 فروری 2013 21:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔12فروری۔ 2013ء) قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے میلینئم گولز اینڈ ڈیولپمنٹ نے پاکستان میں غربت کے خاتمے ، تعلیم اورصحت کے شعبوں کی بہتری اور عام آدمی کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے حوالے سے منصوبہ بندی کمیشن اور یو این ڈی پی کی رپورٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کو جھوٹ کا پلندہ قراردیتے ہوئے سختی سے مسترد کر دیا، ایڈیشنل سیکرٹری پلاننگ کمیشن کوآئندہ اجلاس میں درست اور تازہ ترین اعداد و شمارپرمبنی رپورٹ پیش کرنے کی سختی سے ہدایت ، کمیٹی نے حکومت کو حاملہ خواتین کو دوران زچگی علاج معالجے کی سہولت پہنچانے کیلئے بلوچستان اور دور دراز علاقوں میں ایئر ایمبولینس کا نظام متعارف کرانے کی سفارش کردی۔

منگل کو قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے ملینیم گولز اینڈ ڈویلپمنٹ کا اجلاس منگل کو چیئرپرسن کمیٹی شہناز وزیر علی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

پلاننگ کمیشن نے 2015ء کے ملینئم ترقیاتی اہداف پر خصوصی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 2015ء تک ملک میں بھوک اور غربت کی شرح اوسط کم کر کے 13 فیصد تک لانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جبکہ ملک گیر سطح پر اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح22.3 فیصد ہے جبکہ سندھ میں عربت کی شرح26.5 فیصد ، بلوچستان 50.9 فیصد ، خیبر پختونخواہ 28.2 فیصد اور پنجاب میں غربت کی شرح 25 فیصد ہے۔

پانچویں جماعت تک سکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں کی شرح سندھ میں 53 فیصد ، بلوچستان 57 فیصد ، خیبرپختونخواہ 52 فیصد اور پنجاب میں 61 فیصد ہے۔ اسی طرح عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں سندھ میں 0.77 فیصد ، بلوچستان 0.58 فیصد ، خیبر پختونخواہ 0.72فیصد جبکہ پنجاب میں 0.95 فیصد کمی واقع ہوئی۔ بروقت پیدائش بچوں کی شرح اموات (فی ہزار) 2-15ء تک 40 تک لانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جبکہ اس وقت سندھ میں 71، بلوچستان 104، خیبر پختونخواہ 76 اور پنجاب 82 اور وفاقی دارالحکومت میں 75 فیصد ہے۔

دوران زچگی خواتین کی شرح اموات (فی لاکھ) کم کر کے 2015ء تک 140 تک لانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جبکہ سندھ میں اس وقت 350، بلوچستان 758، خیبر پختونخواہ 275 ، پنجاب 277 جبکہ وفاقی دارالحکومت 276 ہے۔ پلاننگ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پینے کے صاف پانی تک رسائی کا ہدف 2015ء تک 93 فیصد مقرر کیا گیا تھا جبکہ سندھ میں 93 فیصد شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے ۔

بلوچستان میں 47 فیصد ، خیبر پختونخواہ میں 73 فیصد پنجاب میں 94 فیصد جبکہ وفاقی دارالحکومت میں 87 فیصد شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے مذکورہ اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہوئے انہیں غلط اور جھوٹے قرار دیا جبکہ ایڈیشنل سیکرٹری پلاننگ کمیشن جاویدپر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فاضل ارکان نے کہا کہ زمین حقائق پیش کی گئی رپورٹ سے یکسر مختلف ہیں جس پر خصوصی کمیٹی نے اگلے اجلاس میں ایڈیشنل سیکرٹری پلاننگ کمیشن کو تازہ ور درست اعداد و شمار پیش کرنے کی ہدایت کی۔