کرانی روڈ واقعہ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 89 ہوگئی ہے ،زخمیوں کو سی ایم ایچ ہسپتال میں تمام تر سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے ، کوئٹہ سمیت دیگر ہائی رسک اضلاع میں پولیو مہم جاری ہے، رواں سال بلوچستان میں خسرہ سے 42 بچوں کی اموات ہوئیں، سرکاری ہسپتالوں میں خراب مشینری کی مرمت کا کام گزشتہ 20 دنوں سے جاری ہے ،سیکرٹری صحت بلوچستان نصیب اللہ بازئی کی پریس کانفرنس

پیر 18 فروری 2013 22:17

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔18فروری۔2013ء) سیکرٹری صحت بلوچستان نصیب اللہ بازئی نے کہا ہے کہ سانحہ کرانی کے المناک واقعہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 89 ہوگئی ہے زخمیوں کو سی ایم ایچ ہسپتال میں تمام تر سہولیات کی فراہمی حکومت بلوچستان کے خرچ پر کی جارہی ہے ، کوئٹہ کے علاوہ صوبے کے دیگر ہائی رسک اضلاع میں پولیو مہم جاری ہے رواں سال کے دوران بلوچستان میں خسرہ سے 42 بچوں کی اموات ہوئی تاہم اس وباء کو کنٹرول کرلیا گیا ہے سرکاری ہسپتالوں میں خراب مشینری کی مرمت کا کام گزشتہ 20 دنوں سے جاری ہے ، تمام اضلاع سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز کو مقامی علاقوں میں خدمات انجام دینے کے لئے بھیجا جائے گا ، ادویات کی بلوچستان بھر میں کوئی کمی نہیں ۔

وہ پیر کو ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ بلوچستان کے دفتر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرت رہے تھے ۔

(جاری ہے)

نصیب اللہ بازئی کا کہنا تھا کہ کرانی روڈ المناک واقعے نے متاثرہ خاندانوں سمیت ہر شہری پر برے اثرات مرتب کئے ہیں صوبائی حکومت زخمی ہونے والے افراد کو بہتر سے بہتر سہولتیں فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں اس وقت تک کسی بھی زخمی کو کراچی ریفر نہیں کیا گیا کیونکہ ڈاکٹرز ان کی بہتر نگہداشت کررہے ہیں اگر ضرورت محسوس ہوئی اور معالجین نے کہا تو زخمیوں کو کراچی بھی ریفر کیا جائے گا اس سلسلے میں وہاں کے حکام سے رابطے میں ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ معمولی زخمی ہونے والے درجنوں افراد کو ڈسچارج کیا جاچکا ہے البتہ سی ایم ایچ میں زیر علاج 65مرد ، 33 خواتین اور 12 بچوں میں سے 9 کی حالت تشویشناک ہیں جبکہ 10 ایسے مزید ہیں جنکی انتہائی نگہداشت جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سی ایم ایچ میں ملک بھر کے دیگر ہسپتالوں کی طرح سہولیات دستیاب ہیں بلکہ 7 شعبے ایسے ہیں کہ جن کا یہاں سے بہتر علاج ملک بھر میں کہیں نہیں ہوتا ۔

مریضوں کی حالت میں بہتری آرہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ زخمیوں کو ان کے اہلخانہ کی جانب سے خدشات پر سو ل اور بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال سے سی ایم ایچ اور بے نظیر شہید بھٹو ہسپتال منتقل کیا گیا ہیں انتظامی طور پر حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ تمام زخمیوں کو طبی سہولیات کی مفت اور فوری فراہمی ممکن بنائے ۔ ایک سوال کے جواب میں نصیب اللہ بازئی کا کہنا تھا کہ سانحہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 89 ہوگئی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سول ہسپتال ، بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال سمیت دیگر میں خراب مشینری کو ٹھیک کرنے کا کام گزشتہ 20 دن سے جاری ہیں بدقسمتی سے گزشتہ 4 سالوں کے دوران ہسپتالوں کو درکار مشینری کی پرچیزنگ نہیں ہوسکی ہے سی ایم آئی کی سرپرستی میں جون سے قبل سرکاری ہسپتالوں میں درکار مشینری کی کمی کو پورا کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہاکہ مہنگی ادویات سے ٹھیک ہونے کا تاثر صحیح نہیں بلوچستان بھر کے ہسپتالوں میں ادویات کی کوئی کمی نہیں گزشتہ دنوں ایک شکایت پر دس دس لاکھ روپے کی مزید ادویات اضلاع کو فراہم کی گئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ادویات کی غریب عوام کو صحیح فراہمی بارے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اس پر کھڑی نظر رکھے گی ۔ نصیب اللہ بازئی کا کہنا تھا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ 9 اضلاع کا دورہ کرچکے ہیں جہاں فارماسسٹ کی موجودگی میں عوام کو ادویات کی فراہمی کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کہیں ادویات کی کمی ہے تو انہیں بتایا جائے بعض لوگوں کی انفرادی رویے کی وجہ سے مریضوں ، ان کے خاندان کو تکلیف اور حکومت کی بدنامی ہوتی ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ جعلی ادویات کی شکایات صوبہ بھر میں روز اول سے موجود ہے اس وقت محکمہ صحت کے آفیسران کیمیکل لیبارٹریز اور دیگر اس لیول پر اس کی روک تھام نہیں کرسکتے جس پر ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سمری صوبائی اعلیٰ حکام کو بھجوادی ہے جس کے تحت تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز کو اپنے علاقوں میں اس گھناؤنے کاروبار سے منسلک افراد کے خلاف کاروائی کرنے کا کہا گیا ہے ہمیں امید ہے کہ بہت جلد سمری ملنے کے بعد کاروائی شروع ہوگی ۔

انہوں نے کہاکہ پولیو مہم کو پہلے ویکسین کی عدم فراہمی کی بناء پر ملتوی کردیا گیا تھا جبکہ اب کوئٹہ کے علاوہ 5 اضلاع میں ویکسین ملنے کے بعد مہم شروع کردی گئی ہے کوئٹہ میں ڈور ٹو ڈور مہم کو عارضی طور پر ملتوی کیا گیا ہے بہت جلد دوبارہ اسے شروع کیا جائے گا ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ فی الوقت جاں بحق ہونے والے 81 افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ ہوچکے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ بھر م یں ڈاکٹرز کی کہیں بھی کمی نہیں گریڈ 17 سے 21تک 22 ہزار سے زائد ڈاکٹرز ہیں مگر ہیومن ریسورس ڈائریکٹریٹ جس میں 15 آفیسران کام کررہے ہیں سے جب ان ڈاکٹرز کے علاقوں اور دیگر بارے معلومات طلب کی گئی تو انہوں نے کہا کہ اس بارے میں انہیں کسی نے کبھی نہیں کہا اب اس سلسلے میں 80 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے ہم ایک فیصد بھی دیر نہیں کریں گے ۔

ہر ضلع سے تعلق رکھنے ڈاکٹر کو اپنے ہی عوام کی خدمت کے لئے بہر صورت بھیجا جائے گا نصیب اللہ بازئی نے کہا کہ پشین میں ایک سو 20 ڈاکٹرز ہونے کے باوجود ریجنل ہیلتھ سینٹر برشور گزشتہ 3 سال سے بند تھا جہاں 3 ڈاکٹرز بھجوادیئے گئے ہیں اس سلسلے میں دباؤ کا مقابلہ کیا جارہا ہے میں سیکرٹری صحت اپنی خواہش اور سفارش سے نہیں بنا جب تک ہوں کسی دباؤ میں آئے بغیر کام کروں گا ۔

خسرہ سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بارے وارنگ مل چکی تھی 22 اضلاع میں ایک سو 5سال کے بچوں کو خسرے سے بچاؤ کے ویکسین لگائے جاچکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ خسرہ سے بلوچستان کے علاقوں نصیرآباد ، جعفرآباد ، قلعہ عبداللہ ، کچھی میں رواں سال کے دوران42 بچے موت کے آغوش میں جاچکے ہیں تاہم اس وباء کو کنٹرول کرلیا گیا ہے اس سلسلے میں تمام ڈی ایچ اوز سے جواب طلبی بھی کی گئی ہے ۔