وفاق اور صوبوں کی کھینچا تانی سے 2011-12ء میں خسرے کی ویکسین بروقت نہ خریدے جانے کی وجہ سے سندھ و بلوچستان میں 17400 بچے خسرے میں مبتلاء ہوئے ، 413 اموات ہوئیں ،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کے اجلاس میں انکشاف ،ای پی آئی پروگرام کے تحت ہونے والی ویکسی نیشن کی چیکنگ غیر جانبدار اداروں سے کرائی جائے، 2011-12ء میں محض 30 فیصد بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلائے گئے ، وفاق نے سو فیصد بچوں کیلئے ویکسین خرید کر صوبوں کو بھجوائی تھی، کمیٹی کی سفارش ،قائمہ کمیٹی کا سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں بچوں کی ویکسی نیشن میں غفلت اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار

منگل 26 فروری 2013 22:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔26فروری۔2013ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ وفاق اور صوبوں کی کھینچا تانی کی وجہ سے 2011-12ء میں خسرے کی ویکسین بروقت نہیں خریدی جاسکی جس کی وجہ سے سندھ و بلوچستان میں 17400 بچے خسرے میں مبتلاء ہوئے جبکہ 413 موت کے منہ میں چلے گئے۔ قائمہ کمیٹی نے سفارش کی کی ای پی آئی پروگرام کے تحت ہونے والی ویکسی نیشن کی چیکنگ غیر جانبدار اداروں سے کرائی جائے۔

2011-12ء میں محض 30 فیصد بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلائے گئے جبکہ وفاق نے سو فیصد بچوں کیلئے ویکسین خرید کر صوبوں کو بھجوائی تھی۔ قائمہ کمیٹی نے سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں بچوں کی ویکسی نیشن میں غفلت اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

(جاری ہے)

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کا اجلاس منگل کو چیئرپرسن فرح عاقل کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

قائمہ کمیٹی کے فاضل رکن کریم احمد خواجہ نے کہاکہ ای پی آئی والے صرف پولیو پر توجہ دے رہے ہیں مگر ملک سے پولیو کا خاتمہ نہ ہوسکا جبکہ اس دوران دوسری بیماریاں بھی مختلف علاقوں میں قابو سے باہر ہوگئیں۔ گذشتہ سال سندھ اور بلوچشتان میں خسرے سے جن بچوں کی اموات واقع ہوئیں اس میں ہسپتال انتظامیہ اور ویکسی نیٹر دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ای پی آئی کا عملہ اضلاع میں کام نہیں کرتا۔ مرکز کو جو اعدادو شمار بھیجے جاتے ہیں وہ سب جھوٹے ہیں۔ اگر تمام بچوں کو بروقت ویکسین دی گئی ہوتی تو آج پولیو، خسرہ، ٹی بی، تشنج، خناق اور ہیپا ٹائٹس جیسے موذی امراض پر قابو پالیا گیا ہوتا۔ ای پی آئی کو چاہئے کہ ویکسینیٹرز کیساتھ ساتھ لیڈی ہیلتھ ورکرز سے بھی بچوں کو ویکسین دینے کا کام لے جبکہ ویکسی نیشن کیلئے آگاہی پروگرام میں موبائل فونم میسج کا آپشن بھی استعمال کیا جائے۔

قائمہ کمیٹی کو ای پی آئی کے نیشنل پروگرام منیجر ڈاکٹر زاہد لاڑک نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ای پی آئی نے 2011-12ء میں 12 ارب 39 کروڑ کی ویکسین صوبوں کو بھجوائی لیکن اصل مسئلہ صوبائی حکومت اور ضلع کے درمیان ہے۔ بچوں کی ویکسی نیشن کے حوالے سے صوبائی رپورٹس درست نہیں ہوتیں۔ 2011-12ء میں صوبوں نے سو فیصد ویکسی نیشن کی رپورٹیں بھجوائیں جبکہ آغا خان فاؤنڈیشن کی سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ چاروں صوبوں میں 30 فیصد ویکسی نیشن ہوئی۔

انہوں نے کہ کہ خسرے کی ویکسی نیشن کیلئے GAVI نے تین کروڑ ڈالر دینے کی پیشکش کی ہے جبکہ اڑھائی کروڑ روپے صوبائی حکومتوں نے خرچ کرنا ہوں گے مگر سندھ حکومت کے سواء کسی نے بھی اس مد میں کوئی رقم نہیں رکھی۔ صرف سندھ حکومت نے 40 کروڑ روپے رکھے۔ قائمہ کمیٹی کی رکن کلثوم پروین نے کہا کہ بچے سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ویکسینیٹرز کو دور دراز علاقوں میں جانے سے گریز نہیں کرنا چاہئے جبکہ رکن کمیٹی نزہت صادق نے کہا کہ ای پی آئی اور صوبائی حکومتوں کے مابین ویکسین کی خریداری پر جھگڑے کی وجہ سے گذشتہ سال سندھ میں سینکڑوں بچے خسرے کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے۔

دراصل 18 ویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس چلا گیا جس کی وجہ سے صوبائی سیکرٹری صحت ویکسین کی خریداری خود کرنا چاہتے تھے جبکہ ای پی آئی والے اس کو خود منصوبہ قرار دے کر ماضی کی طرح خود ہی ویکسین کی خریداری کرکے صوبوں کو ان کے کوٹے کی ویکسین بھجوانا چاہتے تھے جبکہ صوبائی ہیلتھ سیکرٹریز کا موقف تھا کہ ای پی آئی انہیں فنڈز فراہم کرے ویکسین کی خریداری خود کریں گے مگر ای پی آئی نے انہیں اجازت نہیں دی۔

یوں 2011-12ء میں ویکسین کی خریداری تاخیر کا شکار ہوگئی جس کی وجہ سے سندھ میں بچوں کی بروقت ویکسی نیشن نہیں ہوسکی۔ اس پر ڈاکٹر زاہد لاڑک نے کہا کہ سندھ میں بروقت ویکسی نیشن سیلاب کی وجہ سے نہ ہوسکی جس کے نتیجے میں 17 ہزار 400 بچے خسرے کا شکار ہوئے جبکہ 413 موت کے منہ میں چلے گئے۔ قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی کہ ملک بھر میں ویکسی نیشن کی غیر جانبدار اداروں کے ذریعے چیکنگ کرائی جائے۔