اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے ،اس نے خواتین سمیت معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق کا برابر خیال رکھا ہے، اسلام خواتین کے حقوق میں رکاوٹ نہیں ہے ، مخصوص سوچ کے لوگ اپنے مفادات کیلئے مذہب کا نام استعمال کرکے ایسا تاثر دے رہے ہیں ،خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات و تعلقات عامہ اور عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر میاں افتخار حسین کاعالمی یوم خواتین کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب

جمعہ 8 مارچ 2013 22:21

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔8مارچ۔ 2013ء) خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات و تعلقات عامہ اور عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اور اس نے خواتین سمیت معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق کا برابر خیال رکھا ہے اسلام خواتین کے حقوق میں رکاوٹ نہیں ہے بلکہ مخصوص سوچ کے لوگ اپنے مفادات کیلئے مذہب کا نام استعمال کرکے ایسا تاثر دے رہے ہیں۔

وہ جمعہ کو پریس کلب پشاور میں عالمی یوم خواتین کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے ۔ تقریب میں دوسروں کے علاوہ رکن صوبائی اسمبلی شگفتہ ملک نے بھی خطاب کیا اور خواتین کے حقوق اور اس سلسلے میں حکومت کی جانب کئے گئے اقدامات پر تفصیل سے اظہار خیال کیا۔

(جاری ہے)

میاں افتخار حسین نے کہا کہ ہم صنفی امتیاز سے بالا تر ہو کر تمام انسانوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں کیونکہ بحیثیت انسان سب برابر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حقوق کے لحاظ سے مرد و خواتین میں کوئی فرق نہیں اور معاشرے میں ان میں پائی جانے والی تفاوت معاشرے کی پیدا کردہ ہے اور ا س میں مرد و خواتین دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کیلئے ہم سب کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی ہوں گی اور پچپن ہی سے بیٹے اور بیٹی کا فرق کو ختم کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ مرد و خواتین میں تفاوت مخصوص سوچ کی پیدا وار ہے اور ضیاء دور میں یہ تفاوت اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔

معاشرے میں صنفی امتیاز اس لئے پیدا کیا گیا تاکہ ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے دین اورمعاشرے میں ماں، بیٹی اور بہن کی حیثیت سے خواتین کوعزت کا جو اعلیٰ مقام حاصل ہے دوسرے مذاہب اورمعاشروں میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ماں ،بیٹی اور بہن ایسے عظیم رشتے ہیں جن کے سامنے ہر کوئی سر خم ہے۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم صنفی امتیاز پر یقین نہیں رکھتے اور خواتین سمیت ہر کسی پر تشدد کے خلاف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اپنی خواتین کو قومی دھارے میں نہیں لائیں گے اس وقت تک ترقی و خوشحالی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔خواتین کی کم عمری کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے صوبائی وزیر نے کہا کہ ہم بذات خود اس کے خلاف ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ اس کی حوصلہ شکنی کیلئے صرف قانون سازی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لئے ہمیں عوامی سطح پر بھر پور شعورپیدا کرنے کیلئے آگہی مہم چلانا ہوگی اور لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ کم عمری کے شادی کے فائدے تو نہیں لیکن اس کے نقصانات زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کی سطح پر بچے کی عمر 18 سال کر دی ہے اور اس مقصد کیلئے باقاعدہ قانون سازی بھی کر لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے کم عمری کی شادی پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔أ

متعلقہ عنوان :