حکومتی منظوری اور محکمہ مالیات کی رضا مندی کے باوجود سروس سٹرکچر ہیلتھ ایمپلائزر کی فائل انتہائی سست روی کا شکار ہے4 ماہ سے دو بارہ مالیات میں پڑی فائل کا نوٹیفکیشن ہونا باقی ہے‘ملازمین کے محکمہ صحت عامہ کے جائز اور تسلیم شدہ مطالبات کا حکومتی منظوری کے باوجود نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے سے ملازمین میں شدید تشویش کا باعث بن رہا ہے، ہیلتھ ایمپلائز آرگنائزیشن رجسٹرڈ آزاد کشمیر کے مرکزی سیکرٹری جنرل آصف جاوید کا بیان

جمعرات 14 مارچ 2013 14:45

میرپور(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔آئی این پی۔ 14مارچ 2013ء) ہیلتھ ایمپلائز آرگنائزیشن رجسٹرڈ آزاد کشمیر کے مرکزی سیکرٹری جنرل آصف جاوید نے کہا ہے کہ حکومتی منظوری اور محکمہ مالیات آزاد کشمیر کی رضا مندی کے باوجود سروس سٹرکچر ہیلتھ ایمپلائزر /ہیلتھ پروفیشنلز کی فائل انتہائی سست روی کا شکار ہے اور گزشتہ تین چار ماہ سے دو بارہ مالیات میں پڑی ہے جس کا محض اب نوٹیفکیشن جاری ہونا باقی ہے۔

مگر ملازمین محکمہ صحت عامہ کے جائز اور تسلیم شدہ مطالبات کا حکومتی منظوری کے باوجود نوٹیفکیشن جاری نہ ہونا ملازمین میں شدید تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ چونکہ حکومتی منظوری گزشتہ سال اپریل میں ہوئی تھی جس میں سروس سٹریکچر اور جملہ الاؤنسز کی ادائیگی کو جائز تسلیم کیا گیا تھا اور اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ملازمین کو جان بوجھ کر نوٹیفکیشن جاری نہ کر کے زبردستی ہڑتال کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ایسی صورت میں ذمہ داری ہیلتھ ایمپلائز آرگنائزیشن پر عائد نہ ہو گی۔

(جاری ہے)

لہذا فوری طور پر سروس سٹرکچر اور جملہ الاؤنسز کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔ انہوں نے اپنے بیان میں چند ایک اضلاع میں ضلعی آفیسران کی من مانی، خلاف قانون کا رروائیوں اور بالخصوص B-17کے آفیسران کے تبادلہ جات ازاںDHOبھمبر و بلا جواز بندش تنخواہ ملازمین کی شدید مذمت کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ DHOبھمبر ڈاکٹر طارق محمود لگتا ہے کہ ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں اور نہ صرف ملازمین کو بلکہ ماتحت آفیسران کو بھی گالیاں دے رہے ہیں اور طبی اخلاقیات کی مسلسل خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

اسی طرح بلاجواز ملازمین کے خلاف معاندانہ کارروائیاں ختم نہ کیں تو نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گئے۔ بھمبر ضلع میں چند ملازمین کو گزشتہ چھ سات ماہ سے تنخواہ نہیں دی جا رہی۔ جبکہ خود ڈاکٹر طارق محمود 1996سے سرکاری رہائش گاہ استعمال کر رہے ہیں مگر کرایہ مکان کی کٹوتی نہیں کروا رہے۔ یہ معاملہ بھی محکمہ آڈٹ اور حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

متعلقہ عنوان :