پوری ہمت کے ساتھ کینسر کے مرض کو قبول کیا ،کینسر سے جنگ جیتنے کے بعد انہیں کرکٹ میں واپسی کی بات کی فکر ستاتی رہتی تھی،مشہور سائیکلسٹ لانس آرمسٹرانگ کی کتاب اٹس ناٹ اباٹ بائیک نے انہیں خوب ہمت دی، بھارتی کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈریوراج سنگھ کی کتاب سے اقتباسات

بدھ 20 مارچ 2013 14:57

موہالی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔آئی این پی۔ 20مارچ 2013ء) بھارتی کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈریوراج سنگھ نے اپنی کتاب دی ٹیسٹ آف مائی لائف میں کینسر سے اپنی جنگ کی داستان کو بیان کیا ہے۔ مارکیٹ میں آنے والی اس کتاب میں انہوں نے تفصیل سے بتایا ہے کہ کینسر کی وجہ سے ان کی زندگی میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں۔کینسر کے مرض سے کامیابی کے ساتھ صحت یاب ہونے والے یوراج سنگھ لکھتے ہیں کہ جب آپ بیمار ہوتے ہیں، جب آپ مکمل طور پر مایوس ہونے لگتے ہیں تو کچھ سوال ایک خوفناک خواب کی طرح بار بار آپ کو ستا سکتے ہیں لیکن آپ کو سینہ تان کر کھڑا ہونا چاہیے اور ان مشکل سوالات کا سامنا کرنا چاہیے۔

وہ لکھتے ہیں کہ میری ملاقات دہلی میں انڈین کینسر سوسائٹی کی اعزازی سیکریٹری سے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ یوی، جس طرح آپ نے کھل کر اپنی لڑائی لڑی ہے، آپ جانے انجانے کینسر سے بچنے والے افراد کے لیے سفیر بن گئے ہیں۔

(جاری ہے)

اس ملک میں جہاں کینسر کے پچاس لاکھ مریض ہیں، وہاں یہ ماننا مشکل لگتا ہے کہ کسی سلیبریٹی کو کبھی یہ بیماری نہیں ہوئی۔ اس سے قبل کینسر سے متاثرہ کوئی جانی مانی ہستی میرے دماغ میں آتی ہے تو وہ ہیں نرگس دت۔

یوراج کا کہنا ہے کہ انہوں نے پوری ہمت کے ساتھ اس بات کو قبول کیا کہ انہیں کینسر ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ خوبصورت نرگس دت(بالی وڈ کی معروف اداکارہ)کے کینسر میں مبتلا ہونے کے بعد ملک میں کیا میں پہلا شخص تھا جس کو یہ بیماری لاحق ہوئی؟ مجھے ایسا نہیں لگتا، ہو سکتا ہے کہ شاید میں بھارت میں پہلا شخص ہوں جسے کینسر کے ساتھ جینے اور اس کے بارے میں بات کرنے، اسے اپنانے، اس کی وجہ سے بال چلے جانے اور اس سے لڑنے سے ڈر نہیں لگتا ہے۔

اپنی کتاب کا مقصد انھوں نے اس طرح بیان کیاکہ یہ کہانی ہے میری کینسر سے پہلے کی زندگی، کینسر کے دوران زندگی اور کینسر کے بعد والی زندگی کی۔یہ کہانی ہے جدوجہد کی، درد قبول کرنے اور اس کے بعد نئی جدو جہد کی۔انہوں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ کینسر سے جنگ جیتنے کے بعد انہیں اس بات کی فکر ستاتی رہتی تھی کہ اب وہ کرکٹ میں کب اور کس طرح واپسی کریں گے۔

ایسے میں اس کتاب لکھنا انہیں سکون فراہم کرتا تھا۔یوراج کہتے ہیں کہ مشہور سائیکلسٹ لانس آرمسٹرانگ کی کتاب اٹس ناٹ اباٹ بائیک نے انہیں خوب ہمت دی۔ یوراج کے لیے ان کی کتاب نے ایک دوست اور ایک رہنما کا کام بخوبی انجام دیا۔یوراج کے مطابق وہ اپنی کتاب کے ذریعے اپنی کہانی اس لیے لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ ایسے حالات میں جی رہے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ تنہا ہیں۔

یوراج لکھتے ہیں کہ جس طرح ہم اپنی جیت اور آرام کو دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں، اسی طرح ہمیں اپنا دکھ بھی بانٹنا چاہیے تاکہ جو لوگ دکھ جھیل رہے ہیں، وہ بھی محسوس کر سکیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اگر اپنی کہانی بتا کر میں کسی ایک شخص کی بھی مدد کر سکوں، تو مجھے خوشی ہوگی۔یوراج مزید لکھتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ میری زندگی کا جو سال گم گیا، وہ رائیگاں نہیں گیا۔

متعلقہ عنوان :