جادو سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن نہیں‘اگلے 3 سالوں تک بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کوئی ریلیف ممکن نہیں، وزیراعظم کے دیئے گئے 20 ارب سے چند دن کیلئے صورتحال تو بہتر ہوسکتی ہے‘ بجلی کے استعمال بارے اب ہمیں اپنی ترجیحات کا ازسرنو تعین کرنا ہوگا، تھرکول کے پاور پلانٹ 3 سال بعد لگیں گے، شوگر ملوں سے بجلی کی پیداوار میں کوئی رکاوٹ نہیں، سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کو وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی ارشد مرزا کی بریفنگ ، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹر تحلیل کرکے 5رکنی نئے بورڈ تشکیل دیئے جائیں ، بلوں کی ریکوری کو یقینی بناتے ہوئے 15 روزہ رپورٹ کمیٹی کو ارسال کی جائے‘ کمیٹی کی وزارت کو ہدایت

بدھ 10 اپریل 2013 17:06

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔آئی این پی۔ 10اپریل 2013ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کو وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی ارشد مرزا نے بتایا ہے کہ جادو سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن نہیں‘اگلے 3 سالوں تک بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کوئی ریلیف ممکن نہیں، وزیراعظم کے دیئے گئے 20 ارب سے چند دن کیلئے صورتحال تو بہتر ہوسکتی ہے‘ بجلی کے استعمال بارے اب ہمیں اپنی ترجیحات کا ازسرنو تعین کرنا ہوگا، تھرکول کے پاور پلانٹ 3 سال بعد لگیں گے، شوگر ملوں سے بجلی کی پیداوار میں کوئی رکاوٹ نہیں‘ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹر تحلیل کرکے 5رکنی نئے بورڈ تشکیل دیئے جائیں ، بلوں کی ریکوری کو یقینی بناتے ہوئے 15 روزہ رپورٹ کمیٹی کو ارسال کی جائے۔

کمیٹی کا اجلاس چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹر زاہد خان کی زیرصدارت بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ، کمیٹی کے رکن سینیٹر عبدالغفور حیدری نے اجلاس میں لوڈشیڈنگ کی صورتحال پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوڈشیڈنگ نے عوام کو ذہنی مریض بنادیا ہے، بلوچستان میں 24گھنٹوں میں سے 23 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ 5 سالوں میں حکومت کچھ نہیں کرسکی دو ماہ میں نگران کیا کرینگے۔

سیکرٹری پانی وبجلی ارشد مرزا نے کمیٹی کو بتایا کہ بجلی کی پیداوار کیلئے غازی بھروتھا کے بعد کوئی بڑا منصوبہ نہیں مکمل ہوا۔ نیوکلیئر پلانٹ مزید نہیں لگائے گئے ، تھرکول دنیا کا بڑا ذخیرہ ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کول پر چل رہے ہیں ہم ابھی تک فرنس آئل اور ڈیزل پر چل رہے ہیں ہمیں اپنی ترجیحات کا ازسرنو تعین کرنا ہوگا۔ کول کے پلانٹ 3 سال بعد آئیں گے پن بجلی بھی 5 سال پہلے نہیں آسکتی ہے۔

شوگر ملز سے بجلی کی پیداوارمیں کوئی رکاوٹ نہیں یہ بھی منصوبے 2 سالوں میں مکمل نہیں ہوسکتے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ذمہ داری پوری نہیں کرتیں مجبوراً NPCC کو مداخلت کرنا پڑتی ہے ، 14 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتے ہیں ، فرنس آئل اور ڈیزل کے متحمل نہیں ہوسکتے ، حکومت اس سال 291 ارب روپے سبسڈی دے رہی ہے یہ 20 ارب روپے اس کے علاوہ ہیں ملکی خزانہ مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتا ہے جس پر سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ حکومت ڈیزل اور فرنس آئل برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے ، سینیٹر گل محمد لاٹ نے کہا کہ بلاتفریق ریکوریاں کی جائے گی یہی وقت ہے سیاسی دباؤ بھی نہیں ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ سندھ میں ڈیم پر 90 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے حکومت فنڈز جاری نہیں کررہی جس پر کمیٹی نے پلاننگ ڈویژن کوہدایت کی کہ 5 ارب روپے فوری جاری کئے جائیں ، کمیٹی نے وزارت پانی و بجلی کو ہدایت کی کہ بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کے لوڈرز آف ڈائریکٹرز کو تحلیل کرکے 5 رکنی نئے بی او ڈی تشکیل دیئے جائیں ، چیف ایگزیکٹو حیدر آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کی خود ساختہ ترقی کی رپورٹ دو نوں میں جبکہ بجلی صارفین سے ریکوری کی 15روزہ رپورٹ کمیٹی کو ارسال کی جائے ، کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی کہ ایک ہفتے میں ارسا اتھارٹی مکمل کی جائے۔