پاک افغان سرحد پر تحریکِ طالبان پاکستان ، عسکریت پسند گروہ کے درمیان شدید جھڑپیں،سینکڑوں جنگجووٴں کا افغانستان کے صوبے ننگرہار اور کنڑ میں تحریک طالبان کے ٹھکانوں پر حملہ ، حملہ پسپا ، حملہ آور ہلاک ،لشکرِ طیبہ، انصارالاسلام ، محمد فورس اور مقامی ملیشیا نے پاکستانی طالبان کی پوزیشنز پر مشترکہ حملہ کیا،تحریک طالبان پاکستان، لشکر طبیہ کشمیر میں کام کررہی ہے، اس کا ٹی ٹی پی اور افغان طالبان سے کوئی واسطہ نہیں،ترجمان لشکر طبیہ

بدھ 26 جون 2013 23:14

پشاور/کابل (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔26جون۔2013ء) پاک افغان سرحد پر تحریکِ طالبان پاکستان اور ایک دوسرے عسکریت پسند گروہ کے درمیان شدید جھڑپیں ، سینکڑوں جنگجووٴں نے افغانستان کے صوبے ننگرہار اور کنڑ میں تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانوں پر حملہ کردیا، حملہ پسپا کردیا گیا، ایک حملہ آور ہلاک ہو گیا ۔بدھ کو نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پاک افغان سرحد پر تحریکِ طالبان پاکستان اور ایک دوسرے عسکریت پسند گروہ کے درمیان شدید جھڑپیں۔

جب سینکڑوں جنگجووٴں نے افغانستان کے ننگرہار اور کنڑ صوبے میں واقع ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ٹی ٹی پی کے مطابق لشکرِ طیبہ، انصارالاسلام (اے آئی)، محمد فورس اور دیگر مقامی ملیشیا (لشکر) نے افغانستان میں پاکستانی طالبان کی پوزیشنز پر مشترکہ حملہ کیا۔

(جاری ہے)

رپورٹس کے مطابق افغان طالبان بھی ان گروپس کی پشت پر موجود تھے تاہم ٹی ٹی پی نے افغان طالبان سربراہ، ملا عمر سے مداخلت کی اپیل کی اور اس کے بعد یہ تصادم تھم گیا۔

ٹی ٹی پی کمانڈر کے مطابق مخالف گروپس نے اب ایک اور حملہ کیا ہے جس میں افغان طالبان شامل نہیں۔عمر خلیق کی نگرانی میں ٹی ٹی پی مہمند گروپ کے نگراں مکرم خراسانی نے میڈیا کو بتایاکہ پاک افغان سرحد پر واقع شونگرئی میں جروبی درہ گاوٴں کے پاس سینکڑوں حملہ آوروں نے ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر دھاوا بول دیا۔خراسانی نے الزام لگایا کہ لشکرِ طیبہ کے کمانڈر حاجی عبدالرحیم کی قیادت میں یہ حملہ کیا گیا۔

طالبان کے مہمند گروپ نے دعویٰ کیا کہ حملہ پسپا کردیا گیا ہے اور ایک حملہ آور مارا بھی گیا ہے۔اس دوران، لشکرِ طیبہ نے ترجمان محمود غزنوی نے ان کے گروپ کے حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کیا ۔ غزنوی نے کہا کہ لشکرِ طیبہ صرف کشمیر میں کام کررہی ہے اور اس کا ٹی ٹی پی اور افغان طالبان سے کوئی واسطہ نہیں۔