فاٹا میں 7ارب ٹن ماربل اور تیل و گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے کوئی کمپنی کام کرنے کیلئے تیار نہیں‘ فاٹا کے اصل رہائشیوں کے بجائے جعلی ڈومیسائل پر دیگر لوگ ملازمتیں حاصل کرلیتے ہیں‘ علاقہ میں تعلیم کے بہتر مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر بچے مدرسوں میں جانے کی وجہ سے دہشت گردی کا حصہ بن رہے ہیں، سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستوں و سرحدی امور کو وفاقی وزیر اور فاٹا حکام کی بریفنگ ، کمیٹی کا قبائلی علاقہ جات میں امن و امان کی صورتحال اور شدید پسماندگی‘ غربت ‘ بے روزگاری اور تعلیمی و صحت کی سہولیات نہ ہونے پر قبائلی علاقہ جات کے چیف ایگزیکٹو و گورنر خیبرپختونخوا کو طلب کرنے کا فیصلہ

بدھ 3 جولائی 2013 16:17

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔آئی این پی۔ 3جولائی 2013ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستوں اور سرحدی امور کو بتایا گیا ہے کہ فاٹا میں سات ارب ٹن ماربل اور تیل و گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے کوئی کمپنی کام کرنے کیلئے تیار نہیں‘ فاٹا کے اصل رہائشیوں کے بجائے جعلی ڈومیسائل پر دیگر لوگ ملازمتیں حاصل کرلیتے ہیں‘ علاقہ میں تعلیم کے بہتر مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر بچے مدرسوں میں جانے کی وجہ سے دہشت گردی کا حصہ بن رہے ہیں‘ کمیٹی نے فاٹا سمیت قبائلی علاقہ جات میں امن و امان کی صورتحال اور شدید پسماندگی‘ غربت ‘ بے روزگاری اور تعلیمی و صحت کی سہولیات نہ ہونے پر قبائلی علاقہ جات کے چیف ایگزیکٹو و گورنر خیبرپختونخوا انجینئر شوکت الله کو کمیٹی کے اجلاس میں بریفنگ کیلئے طلب کرنے کا فیصلہ کیا ۔

(جاری ہے)

بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کا اجلاس سینیٹر صالح شاہ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں سینیٹر افراسیاب خٹک‘ سینیٹر سلیم مانڈوی والا‘ سینیٹر حلال الرحمن و دیگر نے شرکت کی اجلاس میں فاٹا سیکرٹریٹ کے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ فاٹا‘ کرم ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی سمیت دیگر تمام قبائلی علاقوں میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں جس کی تلاش کیلئے 15 سے زائد لائسنس جاری کئے گئے لیکن فاٹا سمیت قبائلی علاقہ جات میں سکیورٹی کی صورتحال کی ابتری کی وجہ سے کمپنیاں اپنا کام شروع نہیں کرسکیں۔

فاٹا حکام نے کمیٹی کو مزید آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقہ جات میں اعلیٰ اور معیاری قسم کی ماربل کے 7 ارب ٹن سے زائد ذخائر بھی موجود ہیں جو مناسب توجہ سے ملکی زرمبادلہ کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ فاٹا حکام نے مزید کہا کہ سکیورٹی کی صورتحال میں ابتری کی وجہ سے وہاں پر ترقی اور خوشحالی کے کوئی منصوبہ جات شروع نہیں کئے جاسکے کمیٹی کو آگاہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے سرحدی و ریاستی امور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ فاٹا میں جعلی ڈومیسائل ہولڈرز کو ملازمتیں دی جارہی ہیں جبکہ اصل فاٹا اور قبائلی علاقوں کے رہائشیوں کو ملازمتیں نہیں مل رہی ہیں جس کی وجہ سے فاٹا میں پسماندگی عروج پر ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ قبائلی علاقہ جات میں تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے فاٹا کے بچوں کا مقابلہ دیگر علاقوں کے بچوں سے کرنا زیادتی ہے کیونکہ فاٹا بچوں کو تعلیمی ماحول نہیں مل رہا جس سے ان کا معیار تعلیم بلند ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ فاٹا سمیت قبائلی علاقہ جات میں تعلیمی اداروں کی کمی کی وجہ سے بچے یا تو مدارس میں چلے جاتے ہیں یا دہشت گردوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں۔

این جی اوز کا ذکر کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ ان علاقوں میں این جی اوز کرپشن میں ملوث ہیں اور ان کے ریٹس 30 سے 40 فیصد زیادہ ہیں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت ان تمام محرومیوں کا خاتمہ کرے گی تمام چھوٹے صوبوں سمیت قبائلی علاقہ جات کو فنڈز بروقت مہیا کرے گی۔ فاٹا حکام نے کمیٹی کو مزید آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں فاٹا کی ترقی و خوشحالی کیلئے 332 ملین ڈالر کے فنڈز فراہم کئے گئے لیکن ان تمام فنڈز کو قبائیلی علاقوں میں خرچ کرنے کے بجائے خیبرپختونخوا میں خرچ کردیئے گئے اجلاس میں کمیٹی کے رکن سینیٹر حلال الرحمن نے کہا کہ ڈگری کالج تحصیل صافی پر ایف سی کے اہلکاروں نے قبضہ کررکھا ہے جس سے وہاں پر تعلیمی نظام متاثر ہورہا ہے انہوں نے کہا کہ فاٹا سمیت دیگر علاقوں میں تعلیمی اداروں سمیت صحت کے مراکز نہ ہونے کے برابر ہیں اراکین کمیٹی نے فاٹا سمیت قبائلی علاقہ جات کے چیف ایگزیکٹو و گورنر خیبرپختونخوا انجینئر شوکت الله خان کو قبائلی علاقوں میں پائی جانے والی پسماندگی پر وضاحت دینے کیلئے طلب کرنے پر اتفاق کیا ہے۔