کراچی بدامنی کیس میں رینجرزکی رپورٹ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ، عدالت کا سابق سینئرممبر بورڈ آف ریونیو شاہ زرشمعون کو چیئرمین اینٹی کرپشن بنانے پر حیرت کا اظہار ،کیا اب عدالت کو کرپشن کی تحقیقات کیلئے ایسے شخص سے رجوع کرنا ہو گا جو خود کرپشن میں ملوث ہے ؟،دوران سماعت بنچ کے ریمارکس ،اگر عدالتی فیصلے پر عمل ہوجاتا تو لیاری سے لوگ نقل مکانی نہ کرتے،لیاری کے عوام ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور ہم پولیس کی کہانیاں سن سن کرتھک چکے ہیں،ملک کی جیلوں کا حال بہت برا ہے جو سازشیں باہر ہوتی تھیں وہ اب جیل کے اندر ہوتی ہیں،جیل میں ایسے افسران تعینات کئے گئے ہیں جن کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں، عدالت کو اطلاع ملی ہے کہ سینٹرل جیل آپریشن کے دوران ایک ہزار موبائل فون ملے ہیں یہ کہاں سے آئے، جب بھی ہم سماعت کیلئے کراچی آ تے ہیں آئی جی کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے،دوران سماعت بنچ کے ارکان کے ریمارکس ،مزید سماعت (بدھ)تک ملتوی

پیر 15 جولائی 2013 18:59

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔15جولائی۔ 2013ء) سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں رینجرزکی رپورٹ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے سابق سینئرممبر بورڈ آف ریونیو شاہ زرشمعون کو چیئرمین اینٹی کرپشن بنانے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب عدالت کو کرپشن کی تحقیقات کے لئے ایسے شخص سے رجوع کرنا ہو گا جو خود کرپشن میں ملوث ہے فاضل بنچ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اگر عدالتی فیصلے پر عمل ہوجاتا تو لیاری سے لوگ نقل مکانی نہ کرتے،لیاری کے عوام ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور ہم پولیس کی کہانیاں سن سن کرتھک چکے ہیں،ملک کی جیلوں کا حال بہت برا ہے جو سازشیں باہر ہوتی تھیں وہ اب جیل کے اندر ہوتی ہیں،جیل میں ایسے افسران تعینات کئے گئے ہیں جن کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں، عدالت کو اطلاع ملی ہے کہ سینٹرل جیل میں آپریشن کے دوران ایک ہزار موبائل فون ملے ہیں یہ کہاں سے آئے، جب بھی ہم سماعت کیلئے کراچی آ تے ہیں آئی جی کی طبعیت خراب ہوجاتی ہے۔

(جاری ہے)

عدالت نے مقدمہ کی مزید سماعت 17 جولائی تک ملتوی کر دی ۔پیر کو جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت زمینوں کے ازسر نو ریکارڈ مرتب کرنے کے معاملے پر جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ کراچی میں12-2011 کے دوران بڑی تعداد میں زمینیں الاٹ کی گئیں، کم قیمت میں اتنی بڑی تعداد میں الاٹمنٹ کی وجوہات کون بتائے گا؟۔

جس پر سربراہ لینڈ کمیشن نذر محمد لغاری نے عدالت میں بیان دیا کہ 5 گوٹھوں کا ریکارڈ دوبارہ مرتب کرلیا گیا ہے جبکہ 175 دیہات باقی رہ گئے ہیں جن کاریکارڈ اب تک ازسر نو مرتب نہیں کیا گیا، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اب تک 180 دیہات کا ریکارڈ مرتب نہیں ہوا، لگتا ہے کہ جن 5 دیہات کی زمینوں کے ریکارڈ مرتب کرنے کی بات کی جارہی ہے وہ بھی نہیں ہوا۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے سابق سنیئر ممبر بورڈ آف ریونیو شاہ زرشمعون کو چیئرمین اینٹی کرپشن بنانے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب عدالت کو کرپشن کی تحقیقات کے لئے ایسے شخص سے رجوع کرنا ہو گا جو خود کرپشن میں ملوث ہے۔جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ جو افسران سپریم کورٹ کے احکامات میں رکاوٹ بن رہے ہیں ان کے نام پیش کئے جائیں، انہیں شوکاز جاری کریں گے۔

رینجرز کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ پر ڈی جی رینجرز کے دستخط نہ ہونے پر شدید بر ہمی کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ واپس کردی۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے ہدایت کی ڈی جی رینجرز سے دستخط کرواکر رپورٹ دوبارہ جمع کروائیں۔ لیاری میں امن و امان کی صورتحال پر جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے آج لیاری والوں کی زندگی تنگ ہوگئی ہے جبکہ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیئے کہ لیاری کے عوام ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور ہم پولیس کی کہانیاں سن سن کرتھک چکے ہیں، اس موقع پر رینجرز کے وکیل نے عدالت میں رینجرز کی رپورٹ جمع کرائی جس پر ڈی جی رینجرز کے دستخط نہ ہونے پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ڈائریکٹر جنرل رینجرز اتنے مصروف ہیں کہ ان کے پاس کاغذات پر دستخط کرنے کا بھی وقت نہیں، عدالت نے رینجرزکی رپورٹ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ رینجرز جو بات اب اپنی رپورٹ میں کررہی ہے، اس سلسلے میں عدالت 2011 میں ہی فیصلہ دے چکی۔

رپورٹ پر ڈی جی رینجرز کے دستخط کروا کر اسے دوبارہ پیش کیا جائے ضرورت پڑنے پر ڈی جی رینجرز کو بھی بلایا جائے گا۔سماعت کے دوران جسٹس خلجی عارف حسین نے پولیس حکام سے انسداد دہشت گردی عدالت اور سٹی کورٹ سے فرار ہونے والے ملزمان اور اس سلسلے میں کئے جانے والے اقدامات کے بارے میں استفسار کیا۔ جس پر پولیس حکام نے بتایا کہ سٹی کورٹ سے دہشتگردوں کے فرار پر 6 سی آئی ڈی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرادیا گیا ہے جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انسداد دہشتگردی کی عدالت کی وہ کھڑکی بمشکل 14 انچ کی ہے جہاں سے 3 ملزم فرار ہوئے۔

اس کھڑکی سے بلی کا بچہ تو نکل سکتا ہے لیکن انسان نہیں، سٹی کورٹ سے فرار ملزمان کی سیکیورٹی پر تعینات افراد کے خلاف ایف آئی آر میں جو دفعات عائد کی گئیں ہیں وہ تمام قابل ضمانت ہیں، چیف سیکریٹری اس معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ سمیت 17 جولائی کو خود عدالت میں پیش ہوں۔جسٹس خلجی عارف حسین نے رینجرز کے وکیل سے استفسار کیا کہ لیاری میں اسلحہ کہاں سے آتا ہے،اسے رینجرز کی کمزوری کہا جائے یا تعاون، رینجرز دعوت نامے دے کر سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ ختم کرے گی، جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ ڈی جی رینجرز کے مطابق لیاری کی خراب صورتحال میں پولیس ملوث ہے، جس پر عدالت نے آئی جی سندھ کو طلب کرلیا، جواب میں پولیس کے وکیل نے عدالت میں جواب داخل کرایا کہ آئی جی سندھ کی طبعیت خراب ہے، وہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا ہم جب بھی آتے ہیں ان کی طبعیت خراب ہوجاتی ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ملک کی جیلوں کا حال بہت برا ہے جو سازشیں باہر ہوتی تھیں وہ اب جیل کے اندر ہوتی ہیں،جیل میں ایسے افسران تعینات کئے گئے ہیں جن کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں، عدالت کو اطلاع ملی ہے کہ سینٹرل جیل میں آپریشن کے دوران ایک ہزار موبائل فون ملے ہیں یہ کہاں سے آئے، آئی جی جیل خانہ جات نے بتایا کہ اس پر جیل کے 6 اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 6 اہلکاروں کو معطل کیا گیا لیکن آپ کو اور سپرنٹنڈنٹ جیل کو کیوں نہیں؟ جس کے بعد عدالت نے مقدمہ کی سماعت 17 جولائی تک ملتوی کر دی