رویے میں تبدیلی لائیں،نعیم بخاری ایڈووکیٹ کا جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام خط

جمعہ 9 مارچ 2007 22:16

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔9مارچ۔2007ء) سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ نعیم بخاری نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام ایک خط میں ان کے غیر مناسب رویے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے یہ خط تقریباً ایک ہفتہ قبل لکھا گیا تھا تاہم اسے اشاعت سے روک دیا گیا تھا نعیم بخاری نے تحریر کیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے پشاورمیں گارڈ اف آنر پر اصرار کیا۔

ملتان میں فاتحہ خوانی کے لیے حکومت پنجاب کے طیارے کا استعمال کیا۔ہائی کورٹ کے فنکشن میں شرکت کے لیے حکومت سندھ کے طیارے میں حیدرآباد گئے۔چیف جسٹس آف پاکستان کے چیمبر اور سرکاری رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر بڑی رقم خرچ کی گئی۔لاہورمیں سپریم کورٹ کے ججوں کے گیسٹ ہاوٴس میں ایک ونگ کو اپنے لیے مخصوص کرنا اورسندھ کے چیف جسٹس کی سرکاری رہائش گاہ کو مستقل استعمال کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

(جاری ہے)

خط میں نعیم بخاری ایڈووکیٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے بیٹے ڈاکٹرارسلان کے سول سروسز امتحان میں سو میں سے سولہ نمبر حاصل کرنے ،بلوچستان کی ایک عدالت اورقومی احتساب بیو رو میں ان کے خلاف کیس کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان نے بی ایم ڈبلیو سیون سیریز کی کار رکھی ہوئی ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی طرف سے پولیس آفیسرز اور سول سرونٹس کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اوربے عزتی بھی کی جا تی ہے۔

خط میں نعیم بخاری ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ جس طرح چیف جسٹس آف پاکستان کیسوں کی پیروی کرتے ہیں وہ قرین انصاف نہیں ،اس طرح یہ رویہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کی توہین کا باعث بنتا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے بنیادی حقوق کے معاملات کے تحت از خود کارروائی کے بعض معاملات ایسے تھے جو ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ کو ریفر کیے جاسکتے تھے۔

خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے زبانی سنائے گئے فیصلے کو تحریری فیصلوں میں الٹ کر دیا۔اس کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ وفاقی وزیر شیر افگن کی رخصت کی درخواست کو مسترد کر دیا جبکہ تحریری طور پر اجازت دے دی گئی۔خط کے آخر میں جسٹس افتخار محمد کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لائیں اور ایسا رویہ اپنائیں جس سے وہ تنقید کی زد میں نہ آسکیں۔