مقامی حکومتوں میں خواتین کو 33 فیصد، مزدور کسانوں کو 10 فیصد ، اقلیتوں کو 5 فیصد نمائندگی دی جائے، مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دیا جائے، بلدیاتی انتخابات بغیر کسی تعطل کے ہو سکیں، ایم این ایز، ایم پی ایز کے ترقیاتی فنڈ ، وزیر اعظم و وزرائے اعلیٰ کے صوابدیدی فنڈ ختم کیے جائیں، مقامی حکومتوں کو ٹیکس وصول کرنے اور تعلیم و صحت سمیت ضلعی انتظامیہ چلانے کے مکمل اختیارات دیئے جائیں، سیاستدانوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا سیمینار سے خطاب

جمعہ 2 اگست 2013 21:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔2اگست۔ 2013ء) سیاستدانوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں میں خواتین کو 33 فیصد، مزدور کسانوں کو 10 فیصد جبکہ اقلیتوں کو 5 فیصد نمائندگی دی جائے، مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دیا جائے تا کہ بلدیاتی انتخابات بغیر کسی تعطل کے ہو سکیں، ایم این ایز، ایم پی ایز کے ترقیاتی فنڈ جبکہ وزیر اعظم و وزرائے اعلیٰ کے صوابدیدی فنڈ ختم کیے جائیں، مقامی حکومتوں کو ٹیکس وصول کرنے اور تعلیم و صحت سمیت ضلعی انتظامیہ چلانے کے مکمل اختیارات دیئے جائیں۔

گزشتہ روزمقامی ہوٹل میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے ممبر قومی اسمبلی دانیال عزیز نے کہا کہ ابھی اٹھارہویں ترمیم کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بغیر کسی قانون سازی کے 17 نئی وزارتیں قائم کر دی گئیں جو کہ ہنوز برقرار ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) صرف ایک وفاقی سیکرٹری کی پوسٹ تک ختم نہیں کر سکی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل140A کی موجودگی میں کوئی صوبائی یا پارلیمنٹ اختیارات کی مرکزیت کے لیے قانون سازی نہیں کر سکتی۔ در حقیقت بیورو کریسی مقامی حکومتوں کے قیام اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر فاروق ستار نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے قیام کے بغیر 18 ویں ترمیم خطرے میں ہے، ہمیں وڈیروں اور سرداروں کی جمہوریت نہیں بلکہ شراکتی جمہوریت چاہیے۔

مقامی حکومتوں کا نظام جمہوریت کی عمارت کی بنیاد کا پتھر ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران بلدیاتی انتخابات نہ ہو نا جمہوریت کا خسارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈ مقامی ٹی وی چینل پر چلنے والے ڈرامہ” میرا سلطان“ کے بادشاہ کی اشرفیاں ہیں جو کہ من پسند لوگوں میں بانٹی جاتی ہیں۔ اگر ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام نہ آیا تو میرا سلطان کا ڈرامہ جاری رہے گا۔

آج بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں زیادہ مل رہی ہیں۔ مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ ملنا چاہیے اور ایف بی آر ٹیکس وصولیوں کے لیے مقامی حکومتوں کو ٹیکس ایجنٹ بنائے تو کراچی میں 500 ارب روپے کی بجائے 1000 ارب روپے انکم ٹیکس اکٹھا کر کے دکھائیں گے۔ مقامی حکومتوں کو پراپرٹی ٹیکس، موٹروہیکل ٹیکس اور سلز ٹیکس وصول کر نے کی اجازت دی جائے۔ سیمینار میں ”آواز اٹھا“ پروگرام کے چارٹر کے تحت مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دیا جائے۔

خواتین کی33 فیصد، مزدور کسان10 فیصد جبکہ اقلیتوں کو 5 فیصد نمائندگی دی جائے۔ ایم این ایز، ایم پی ایز کے ترقیاتی فنڈز جبکہ وزیر اعظم و وزرائے اعلیٰ کے صوابدیدی فنڈز ختم کیے جائیں۔ مقامی حکومتوں کو ٹیکس وصول کر نے اور تعلیم و صحت سمیت ضلعی انتظامیہ چلانے کے اختیارات دیئے جائیں۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ”آواز اٹھا“ پروگرام کی انچارج ریحانہ ہاشمی نے کہا کہ 2005 کے زلزلے میں مقامی حکومتوں نے ریلیف کی فراہمی میں شاندار کردار ادا کیا۔

سول سوسائٹی کی نمائندہ ظاہرہ عبداللہ نے کہا کہ جمہوریت میں مقامی حکومتوں کا نظام بنیادی اور اولین حیثیت رکھتا ہے۔ بلدیاتی نظام میں مصالحتی انجمنوں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 140A میں وفاقی دار الحکومت کا کوئی تذکرہ موجود نہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں بھی مقامی حکومت کا نظام لایا جانا ضروری ہے۔ ایم این ایز، ایم پی ایز کے ترقیاتی فنڈز کی مخالفت کرتے ہیں۔قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر الیکشن ہونا چاہیے۔ سیمینار سے سول سوسائٹی کے نمائندوں نصر میمن، نعیم مرزا، ساجد منظور کیانی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔