سپریم کورٹ کی اٹھائے شخص عبدالرحمن کو پیش کر نے کیلئے آئی جی خیبر پختونخوا کو 3 روز کی مہلت ، پولیس فورس اگر زمین پر رینگنے والے چھوٹے چھوٹے کیڑوں کو ڈھونڈنا چاہیے تو بھی ممکن ہے، لاپتہ افراد کے مقدمات کے باعث ججوں کو نیند نہیں آتی، پولیس مجرموں کو راہ فرار دینے کے لیے جعلی ضمنیاں بھی تیار کر تی ہے، عبدالرحمن کی گمشدگی میں ملوث انسپکٹر ارشد کو بچانے کے لیے پولیس نے پوری مستعدی کا مظاہرہ کیا جس کے باعث متعلقہ انسپکٹر نے ضمانت قبل از گرفتاری کرالی، یہ آئی جی یا انسپکٹر کا معاملہ نہیں بلکہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کا معاملہ ہے،چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ کے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس

جمعہ 2 اگست 2013 22:53

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔2اگست۔ 2013ء) سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا پولیس انسپکٹر کی جانب سے اٹھائے جانے والے شخص عبدالرحمن کو پیش کر نے کے لیے آئی جی خیبر پختونخوا کو 3 روز کی مہلت دیدی۔ عدالت نے لاپتہ افراد مقدمات کو سب سے زیادہ اہم مقدمات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس فورس اگر زمین پر رینگنے والے چھوٹے چھوٹے کیڑوں کو ڈھونڈنا چاہیے تو بھی ممکن ہے، لاپتہ افراد کے مقدمات کے باعث ججوں کو نیند نہیں آتی، پولیس مجرموں کو راہ فرار دینے کے لیے جعلی ضمنیاں بھی تیار کر تی ہے، عبدالرحمن کی گمشدگی میں ملوث انسپکٹر ارشد کو بچانے کے لیے پولیس نے پوری مستعدی کا مظاہرہ کیا جس کے باعث متعلقہ انسپکٹر نے ضمانت قبل از گرفتاری کرالی، یہ آئی جی یا انسپکٹر کا معاملہ نہیں بلکہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کا معاملہ ہے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت شروع یک تو آئی جی خیبر پختونخوا احسان غنی نے عدالت میں رپورٹ جمع کراتے ہوئے بتایا کہ عبدالرحمن کے واقعے میں ملوث ایس ایچ او کے خلاف پہلی ایف آئی آر معطل کر دی گئی ہے اور اس میں نئی دفعات کا اضافہ کیا جائے گا ابھی تک اس کیس کی فائل مکمل طریقے سے نہیں پڑھ سکا۔

عدالت نے کہا کہ اگر آئی جی کو پتہ ہی نہیں کہ وہ جس کیس میں جواب دہی کے لیے سپریم کورٹ میں پیش ہو رہا ہے اس کی کیا تفصیل ہے تو پھر پولیس ڈیپارٹمنٹ کا کیا بنے گا۔ ابھی تک پولیس نے اپنے پیٹی بھائی پولیس انسپکٹر کو بچانے کے لیے لاپتہ عبدالرحمن کی بہن کا بیان نہیں لیا جو کہ اس بات کی عینی شاہد ہے کہ انسپکٹر ارشد نے عبدالرحمن کو اس کے گھر سے اٹھایا۔

ہمیں تو نیند نہیں آتی ان مقدمات کی اتنی زیادہ اہمیت ہے ۔18سے 26تک کوئی ضمنی نہیں ہے۔9 دن ہو گئے ہیں اور آپ کو کچھ پتہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اس لیے بلایا تھا کہ اعلیٰ سطح کی تحقیقات کر کے عدالت کو بتایا جائے کہ متعلقہ شخص کی بازیابی کے لیے کیا کاروائی کی گئی ہے لیکن یہاں پر ماسوائے ڈی ایس پی کے کوئی بھی افسر نہیں آیا۔ اگر دو انچ پر بھی ایک پولیس والا تلاش کرتا تو عبدالرحمن یہاں موجود ہوتا۔

پولیس پر بہت سنجیدہ الزام ہے اگر کوئی ملزم ہے تو اس پر مقدمہ چلانے سے کوئی نہیں روکتا۔جانتے ہیں کے پی کے کے بہت مشکل حالات ہیں جیلیں توڑ کر قیدی بھاگ گئے ہیں ،7 قیدی تو سپریم کورٹ کے حکم پر جیل میں تھے وہ بھی بھاگ گئے۔ آئی جی پنجاب نے ایک شخص کو 24 گھنٹے میں عدالت کے سامنے پیش کیا سید نعیم جان 3 سال سے لاپتہ تھا جس افسر کے پاس یہ کیس تھا اس کو تبدیل کر دیا گیا اس شخص نے سید نعیم جان کو تلاش کر لیااب وہ لاپتہ شخص اپنے گھر میں ہے۔

اس موقع پر آئی جی نے کہا کہ فائل نہیں دیکھ سکا۔ عدالت نے کہا کہ اگر ایسی صورتحال ہے تو حیران کن ہے دو دن کے اندر عبدالرحمن کو عدالت کے سامنے ہر صورت پیش کیا جائے۔ آئی جی ایک منٹ کی ڈائری لکھیں کہ عبدالرحمن کو ڈھونڈنے کے لیے کیا کوشش کرتے رہے ۔اس معاملے میں تو ایک افغانی سے 12 لاکھ روپے لیے گئے ہیں۔ مقدمے کی سماعت کے بعد عدالت نے حکم دیا کہ لاپتہ عبدالرحمن کی بہن کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں۔

انسپکٹر ارشد لاپتہ شخص کی گمشدگی کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ عبدالرحمن کی بہن خائستہ خان کے سابقہ بیان کے مطابق 11 جولائی کو عدالت نے حکم دیا تھا کہ عبدالرحمن کی بازیابی کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں لیکن پولیس نے انہیں کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی۔ انسپکٹر ارشد نے پولیس کی جانب سے عدم کوششوں کے باعث ضمانت قبل از گرفتاری کر الی۔ بادی النظر میں خیر الرحمن کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ پولیس کو ایک اور موقع دیا گیا ہے کہ خیر الرحمن کو 6 اگست تک کسی بھی طرح عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ پولیس نے ٹیمپر کر کے ضمنی بنائی کب تک عدالتی احکامات پر اس طرح کے جواب دیئے جاتے رہیں گے کہ آئی جی کہے کہ اس نے تو فائل بھی نہیں دیکھی۔ مقدمے کی مزید سماعت 6 اگست تک ملتوی کر دی گئی۔