ملک کی 60 فیصد آبادی کو صاف اور شفاف خوراک میسر نہیں ،30 فیصد آبادی مختلف بیماریوں کا شکار ہے ،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کو متعلقہ حکام کی بریفنگ ، قائمہ کمیٹی کی پاکستان کاٹن کمیٹی کو وزارت ٹیکسٹائل سے واپس لیکر وزارت خوراک و زراعت کو دینے ، 10سال سے تاخیر کا شکار قومی سیڈ ایکٹ کی قومی اسمبلی سے منظوری کی سفارش ،نیشنل فوڈسیکیورٹی پالیسی کی جلد تکمیل اور اس میں کسانوں کو بجلی اور کھادوں میں سبسڈی دینے کی سفارش ،کمیٹی نے وزارت صنعت و پیداوار سے یوریا کھاد کی پیداوار پر لاگت اور فروخت بارے تفصیلات طلب کرلیں

بدھ 21 اگست 2013 21:16

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔21اگست۔ 2013ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کو بتایا گیا ہے کہ ملک کی 60 فیصد آبادی کو صاف اور شفاف خوراک میسر نہیں ہے اور 30 فیصد آبادی مختلف بیماریوں کا شکار ہے جبکہ قائمہ کمیٹی نے پاکستان کاٹن کمیٹی کو وزارت ٹیکسٹائل سے واپس لیکر وزارت خوراک و زراعت کو دینے ، 10سال سے تاخیر کا شکار قومی سیڈ ایکٹ کی قومی اسمبلی سے منظوری کی سفارش کرتے ہوئے نیشنل فوڈسیکیورٹی پالیسی کی جلد تکمیل اور اس میں کسانوں کو بجلی اور کھادوں میں سبسڈی دینے کی سفارش کی ہے اور یوریا کھاد کی پیداوار پر لاگت اور فروخت کے حوالے سے وزارت سے تفصیلات طلب کرلی ہیں ۔

بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کا اجلاس سینیٹر سید مظفر حسین شاہ کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ، جس میں اراکین کمیٹی سینیٹر محمد کاظم خان ، سینیٹر سیدہ صغریٰ امام ، سینیٹر سلیم مانڈوی والا ، سینیٹر ظفراللہ خان ڈھانڈلہ، سینیٹر نزہت صادق ، کمیٹی کی خصوصی دعوت سینیٹر محسن خان لغاری رکن قومی اسمبلی سید کاظم علی شاہ ، وفاقی وزیر برائے خوراک و زراعت سکندر حیات بوسن ، وزارت اعلیٰ حکام اور کسانوں کے نمائندوں نے اجلاس میں شرکت کی ۔

(جاری ہے)

جلاس کا ایجنڈا نیشنل فوڈ سیکیورٹی پالیسی کی تشکیل زرعی اجناس کے لئے ریسرچ ادارہ کی کارکردگی ، کھاد کی قیمتوں کے حوالے سے تھا ۔ اجلاس میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک کی 60 فیصد آبادی کو صاف اور شفاف خوراک میسر نہیں ہے جبکہ 30 فیصد آبادی صاف خوراک کی عدم فراہمی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہے ۔ اجلاس کے دوران وزارت کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ نیشنل فوڈ سیکیورٹی پالیسی مرتب کی جارہی ہے ۔

جو ابھی تک مراحل میں ہے جس کا مقصد تمام پاکستانیوں کو صاف شفاف خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانا اور اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز سے رابطہ اور مشاورت کی جارہی ہے ۔ وزارت کے سیکرٹری سیرت اصغر نے کمیٹی کو بتایا کہ انڈیا اپنے کسانوں کو مختلف طریقہ کار سے بھاری سبسڈی دے رہا ہے جس میں محکمہ ریفا، ٹیوب ویلوں پرسستی بجلی جبکہ ڈی اے پی اور یوریا کی سستی فراہمی شامل ہے ۔

اس سے چیئر مین کمیٹی سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ وزارت کے حکام پاکستان میں بھی کسانوں کو ٹیوب ویلوں پر سبسڈی دیں تاکہ کسانوں کو ریلیف مل سکے ۔ جس پر سبسڈی وزارت نے کہا کہ اس وقت بلوچستان واحد پاکستانی صوبہ ہے جو کسانوں کو ٹیوب ویلوں پر سبسڈی دے رہا ہے لیکن وزارت دنیا کے دیگر ممالک کی سیکیورٹی پالیسیوں کو تجزیہ کررہی ہے اور اس حوالے سے جامع پالیسی تشکیل دی جائے گی ۔

وفاقی وزیر خوراک زراعت سکندر حیات بوسن نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ملک میں اگر گیس کے نظام کو بند اور کھاد بنانے ولای فیکٹریوں کو بلا تعطل گیس فراہم کی جائے تو پاکستان یوریا کھاد اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد ایکسپورٹ بھی کرسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈی اے پی اور ایس او پی کھاد کے استعمال کو بڑھانے کے لئے حکومت کو سبسڈی دینی چاہیے کیونکہ اس سے ملکی ذرعی اجناس کی پیداوار میں اضافہ ہوگا ۔

اس موقع پر رکن کمیٹی سینیٹر سیدہ صغریٰ امام نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں یوریا کھاد کے بند بیگ کی پیداوار پر 450روپے لاگت آتی ہے لیکن اس کو مخصوص 1700 روپے میں فروخت کرتا ہے جس پر کمیٹی نے وزارت کے حکام سے ملک بھر میں کھاد پیدا کرنے والی تمام فیکٹریوں اور کار خانوں سے کھاد کی پیداوار پر لاگت اور اس کی فروخت کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کرلی ہیں اور سفارش کی کہ کارخانوں کو گیس کی فراہمی اور ٹیوب ویل استعمال کرنے والے کسانوں کو سبسڈی دینے کی سفارش کی ہے ۔

پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل کے چیئرمین افتخار احمد نے اجلاس میں بتایا کہ پی اے آر سی ملک میں زرعی اجناس پھلوں سبزیوں کے لئے بیجوں پر خصوصی ریسرچ کررہی ہے اور اب تک 70 سے زائد بیج ایجاد کرچکی ہے جس پر رکن کمیٹی صغریٰ امام نے کہا کہ میر معلومات کے مطابق ملک میں 60 فیصد سے زائد کپاس کا بیج بھارت سے اسمگل کیا جاتا ہے اور جب بھبی ملک زرعی اجناس کی پیداوار شروع ہوتی ہے واہگہ بارڈر سے غیر قانونی طور پر زرعی اجناس پاکستان پہنچ جاتے ہیں جس سے پاکستانی اجناس اور کسانوں کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔

جس پر کمیٹی نے وزارت سے اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے اقدامات کی تفصیلات طلب کرلیں ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 10 برسوں سے تاخیر کا شکار قومی لیڈر ایکٹ ابھی تک قومی اسمبلی سے منظور نہیں ہو اجس پر کمیٹی نے سیڈ ایکٹ کو قومی اسمبلی سے جلد از جلد منظوری کی سفارش کی ۔ پی اے آر سی کے چیئر مین افتخار احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ ادارہ ملک بھر میں کھجور پر ڈیرہ اسماعیل خان ، میر پور خاص میں ریسرچ کررہی ہے جبکہ ملک بھر کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں کھجورزیادہ ضائع ہورہی ہے جس کے ضیاع کو روکنے کے لئے ادارہ اقدامات کررہا ہے ۔

وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن نے کمیٹی اجلاس میں سندھ سے آئے ہوئے کسانوں کے نمائندوں کے مطالبہ پر سندھ میں مرچوں کی فصل پر مختلف بیماریوں کے حملہ کی تحقیق اور اس کے خاتمہ کے لئے اقدامات کرنے کے لئے وزارت کو احکامات جاری کیے ۔ انہوں نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پاکستتان دنیا کا دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن حکومتیں دودھ کی بیرونی سطح پر ایکسپورٹ اس لئے نہیں کرنے دیتے کہ ملک میں دودھ کی قیمتیں نہ بڑھ جائیں ۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی اقدامات کے باعچ اس برس کپاس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جبکہ وزارت ٹیکسٹائل نے پہلے کپاس کی قیمتوں کا تعین کردیا ہے ۔ اس موقع پر رکن کمیٹی صغریٰ امام نے کہا کہ پاکستان کاٹن کمیٹی کا وزارت ٹیکسٹائل مین شامل کیا جانا درست نہیں ہے جس پر کمیٹی نے سفارش کی کہ پاکستان کاٹن کمیٹی نے وزارت ٹیکسٹائل سے نکال کر وزارت خوراک و زراعت میں شامل کیا جائے ۔