عسکریت پسندوں کے پولیو مہم پر پابندی کے بعد قبائلی علاقے کے صرف ایک ضلع میں 16 بچوں میں پولیو وائرس کی دریافت کے بعد پولیو کی وبا پھوٹنے کا خطرہ ہے، افغانستان اور نائیجیریا کے بعد پاکستان پولیو کے خطرے کا اہم مرکز ہے ، شمالی وزیرستان میں صحت سے وابستہ ڈاکٹر خیال میر جان کی بات چیت

ہفتہ 31 اگست 2013 22:03

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔31اگست۔ 2013ء) ماہرین صحت نے خبر دار کیا ہے کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے پولیو مہم پر پابندی کے بعد قبائلی علاقے کے صرف ایک ضلع میں 16 بچوں میں پولیو وائرس کی دریافت کے بعد پولیو کی وبا پھوٹنے کا خطرہ ہے، پاکستان میں عسکریت پسندوں کے گڑھ شمالی وزیرستان میں صحت سے وابستہ ایک اہم ڈاکٹر خیال میر جان نے آئی این پی کو بتایا کہ ہزاروں بچوں کی زندگیاں داوٴ پر لگی ہیں۔

افغانستان اور نائیجیریا کے بعد پاکستان تیسرا ملک ہے جہاں پولیو اب تک بچوں کی صحت کیلئے ایک اہم خطرہ بنا ہوا ہے۔ 2005 میں پاکستان میں پولیو کے صرف 28 کیس رجسٹر ہوئے تھے جبکہ گزشتہ برس 200 کے قریب کیسز ریکارڈ کئے گئے تھے۔، طالبان کی پابندی کے بعد 16 بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے ڈاکٹر کے مطابق ، ہم مزید 42 بچوں کے فضلے کے نمونوں لیبارٹری بھیجے گئے اور خدشہ ہے کہ شاید ان بچوں میں بھی پولیو وائرس ہے۔

(جاری ہے)

’مقامی جنگجو حافظ گْل بہادر نے جون 2012 کو وزیرستان میں پولیو ویکسین پر پابندی عائد کردی تھی ان کا الزام تھا کہ یہ مہم دراصل جاسوسی کیلئے کی جارہی ہے۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر ویکسین مہم شروع نہ کی گئی تو خدشہ ہے کہ پولیو کا یہ مرض دوسرے ضلعوں تک بھی پھیل جائے گا۔، ہر روز ہمارے پاس پولیو سے متاثرہ بچے ارہے ہیں اور اگر ہم نے انسدادِ پولیو ویکسین شروع نہ کی تو یہ وبا کی طرح پھیل جائے گی،’ ڈاکٹر خیال میر جان کے مطابق متاثر ہونے والے ذیادہ تر بچوں کی عمر پانچ سال سے بھی کم ہے۔

جان نے کہا کہ نو کیس میری علی کے علاقے میں نوٹ کئے گئے جبکہ سات میرانشاہ میں رپورٹ ہوئے جو وزیرستان کا مرکزی شہر ہے۔ایک انتظامی افسر نے بتایا کہ علما کی مدد سے عسکریت پسند گروہوں سے بات چیت کی جارہی ہے۔آفیشلز کے مطابق جنوبی اور شمالی وزیرستان میں طالبان کی پابندیوں کی وجہ سے 240,000 بچے خطرے میں ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے آفیشل کے مطابق شمالی وزیرستان میں پولیو کے متعدد کیس سا منے آ ئے ہیں جبکہ بچوں میں معذوری بھی سامنے آئی ہے لیکن ہم اب تک (ٹیسٹ کے) نتائج کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کس وائرس سے اپاہج ہوئے ہیں۔