قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کی جانب سے پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی کے باعث مرض دیگر علاقوں میں پھیل سکتا ہے۔طبی ماہرین، افغانستان سے ملحق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں متعدد لوگ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا چاہتے ہیں ، ڈر سے آگے نہیں بڑھتے ، رپورٹ

منگل 24 ستمبر 2013 16:39

کراچی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔آئی این پی۔ 24ستمبر 2013ء) طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کی جانب سے پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی کے باعث یہ مرض دیگر علاقوں میں بھی پھیل سکتا ہے۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایمرجنسی کوآرڈینیٹر ڈاکٹر الیاس دری نے کہا کہ خدشہ ہے کہ وائرس اِن علاقوں سے باہر نکل سکتا ہے اور گزشتہ چند سالوں میں پولیو کے خلاف لڑائی میں حاصل ہونے والی کامیابی کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کسی برتن میں ابلتے ہوئے پانی کی مانند نہیں ہے جہاں آپ کو ہر طرف سے بلبلے اٹھتے دکھائی دیتے ہیں تاہم یہ بھاپ ہے جو مخصوص علاقوں سے اٹھ رہی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق افغانستان سے ملحق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں متعدد لوگ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا چاہتے ہیں لیکن شدت پسندوں کے ڈر سے آگے نہیں بڑھتے۔

(جاری ہے)

سید ولی کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے تین بچوں کے لیے شمال مغربی اس علاقے میں پولیو کی ویکسین لا سکتے ہیں۔

تاہم انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ طالبان نے ان کے پاس سے ویکسین برآمد کر لی تو پھر کیا ہوگا۔شمالی وزیرستان میں متعدد لوگ ایسے ہی خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ وہاں طبی حکام نے حال ہی میں پولیو کے پانچ نئے کیسز کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس علاقے میں مزید کئی بچے اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ وائرس کے اس پھیلا کی وجہ شدت پسندوں کی دھمکیاں اور قطرے پلانے والے طبی کارکنوں پر ہونے والے حملے ہیں۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ بیماری پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی پھیل سکتی ہے۔پاکستان کا شمار ایسے تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں پولیو کے مرض کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا۔ یہاں دو ہزار گیارہ میں ایک سو اٹھانوے بچوں میں اس مرض کا وائرس پایا گیا تھا جو کسی بھی ملک سے زیادہ تھا۔ تاہم دو ہزار بارہ میں اقوام متحدہ کی معاونت سے چلائے گئے ویکسینیشن کے ایک پروگرام کی بدولت یہ تعداد کم ہو کر اٹھاون رہ گئی تھی۔

رواں برس اب تک پولیو کے ستائیس تصدیق شدہ کیس سامنے آ چکے ہیں۔ ڈاکٹر دری کے مطابق ان میں سے سترہ کیسز قبائلی علاقوں میں سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ برس طالبان سے وابستہ دو شدت پسندوں نے جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ پولیو مہم کی آڑ میں جاسوسی کی جاتی ہے۔ انہوں نے امریکی ڈرون حملوں کو بھی اس پابندی کی وجہ قرار دیا تھا۔