تیرہویں صدی میں آتش فشاں انڈونیشیا میں پھٹا تھا ، سائنسدانوں کادعویٰ ، آتش فشاں سے اخراج کے اثرات قطب شمالی اور قطب جنوبی میں برف پر ملے ہیں ، رپورٹ ، آتش فشاں اور لندن میں اجتماعی قبروں کے درمیان ربط کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے ،پروفیسر لیوائن

منگل 1 اکتوبر 2013 14:13

لندن (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 1اکتوبر 2013ء)سائنسدانوں نے اس آتش فشاں کا سراغ لگا لیا ہے جس کے باعث 1257 میں بھاری اخراج ہوا تھا ، آتش فشاں سے اخراج اتنا زیادہ تھا کہ اس کے اثرات قطبِ شمالی اور قطب جنوبی میں برف پر بھی ملے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق قدیم یورپی کتابوں میں اچانک موسم ٹھنڈا ہونے اور فصلیں نہ اگنے کا ذکر کیا گیا سائنسدانوں کی بین الاقوامی ٹیم نے پی این اے ایس جرنل میں لکھا کہ تیرہویں صدی میں بھاری اخراج کی ذمہ دار آتش فشاں سامالس آتش فشاں تھی جو انڈونیشیا کے لمبوک جزیرے میں واقع تھی۔

آتش فشاں کا اب نام و نشان نہیں ہے اور اس کی جگہ صرف ایک بہت بڑی جھیل ہے۔برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر کلائیو اوپنہائیمر نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ اس بارے میں شواہد بہت ٹھوس ہیں فرانس سے تعلق رکھنے والے اس ٹیم کے ایک اور رکن پروفیسر فرینک لوائن نے کہاکہ ہم نے اس بارے بالکل اسی طرح تحقیق کی جس طرح جرائم کی تحقیقات کی جاتی ہیں ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ اس واقعے میں کون ملوث تھا تاہم ہمیں یہ معلوم تھا کہ یہ واقع کب ہوا اور برف سے ملنے والے شواہد ہمارے پاس تھے اس سے قبل 1257 کے اخراج کو میکسکو، ایکواڈور اور نیوزی لینڈ کی آتش فشاں سے جوڑا جاتا رہا ہے تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان ممالک میں آتش فشاں سے کیمیائی اجزاء قطب شمال اور جنوبی سے ملنے والے اجزاء سے مختلف ہیں۔

(جاری ہے)

صرف سامالس آتش فشاں ہی سے شواہد جوڑے جاسکے ہیں۔سائنسدانوں کی ٹیم نے کہاکہ لمبوک میں کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس آتش فشاں سے چالیس مکعب کلومیٹر کے پتھر اور راکھ کا اخراج ہوا تھا اور اندازے کے مطابق راکھ کے بادل چالیس کلومیٹر بلند تھے۔سائنسدانوں کے مطابق آتش فشاں سے اخراج اتنا ہی بڑا ہونا لازمی ہے کیونکہ تبھی اس کے اجزاء قطب شمالی اور جنوبی تک پہنچ سکتے ہیں۔

قدیم یورپی کتابوں میں کہا گیا کہ 1258 کے موسم گرما کے بعد اچانک موسم تبدیل ہوا اور شردی کی شدید لہر آئی اور مسلسل بارش ہوئی جس کے باعث سیلاب آئے۔ماہرآثارِ قدیمہ نے حال ہی میں لندن میں ہزاروں افراد کی اجتماعی قبروں کی تاریخ بھی 1258 بتائی ہے۔پروفیسر لیوائن نے کہاکہ ہم آتش فشاں اور لندن میں اجتماعی قبروں کے درمیان ربط کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن یقیناً لوگوں کو نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔قطب جنوبی اور شمالی میں 1809 میں اسی قسم کے ایک واقعے کے بھی شواہد ملے ہیں تاہم سامالس کی طرح اس کی نشاندہی کرنا بھی بہت مشکل ہے۔