دنیا میں صنفی تفریق میں معمولی کمی آئی ہے ، ورلڈ اکنامک فورم، 2013 میں 136 ممالک میں مردوں اور خواتین کے درمیان تفاوت کا جائزہ لیا گیا، صحت کے معاملے میں مردوں اور خواتین کے درمیان فرق 96 فیصد تک ختم ہو چکا ہے ، نتائج اقتصادی برابری اور تعلیم اور صحت جیسے حقوق کی دستیابی کی بنیاد پر تیار کیے گئے ہیں ،رپورٹ

جمعہ 25 اکتوبر 2013 14:22

لندن (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 25اکتوبر 2013ء) عالمی اقتصادی فورم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں گزشتہ برس کے دوران صنفی تفریق میں معمولی کمی آئی ہے۔گلوبل جینڈر گیٹ رپورٹ 2013 میں جن 136 ممالک میں مردوں اور خواتین کے درمیان تفاوت کا جائزہ لیا گیا ان میں آئس لینڈ، فن لینڈ اور ناروے میں یہ فرق سب سے کم پایا گیا۔اس جائزے کے نتائج دونوں اصناف کی سیاسی نمائندگی، اقتصادی برابری اور تعلیم اور صحت جیسے حقوق کی دستیابی کی بنیاد پر تیار کیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 136 میں سے 86 ممالک میں عمومی طور پر 2013میں مردوں اور خواتین کے درمیان فرق نسبتاً کم ہوا۔ ان ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا ترانوے فیصد ہے۔جائزے کے مطابق مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ وہ دو خطے تھے جہاں صورتحال بہتر نہیں ہوئی اور اس فرق کے حوالے سے بدترین حالات یمن میں ہیں۔

(جاری ہے)

عالمی اقتصادی فورم گزشتہ 8 برس سے ہر سال یہ رپورٹ جاری کرتا ہے اور آئس لینڈ کو اس رپورٹ میں لگاتار پانچویں سال صنفی برابری کیلئے بہترین ملک قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ کی بانی اور شریک مصنفہ سعدیہ زاہدی نے بتایا کہ 2006 میں اس انڈیکس کے اجرا کے بعد سے اب تک 80 فیصد ممالک میں صنفی برابری کے معاملے میں بہتری آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ پریشان کن امر ہے 20 فیصد ممالک میں اس سلسلے میں یا تو کوئی بہتری آئی ہی نہیں یا وہ پیچھے ہیں۔زاہدی سعدیہ نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان دونوں ممالک میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ترقی تو ہوئی ہے تاہم انہوں نے خواتین کو اس کا حصہ نہیں بنایا۔

ان کے مطابق روزمرہ زندگی میں دیکھا جائے تو 2006 میں تین یمنی خواتین صدر کے عہدے کے لیے امیدوار تھیں اور بہت سی خواتین اہم عہدوں پر بھی فائز ہیں تاہم ہمارے ہاں زچگی کے عمل میں ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور چھ سے چودہ سال کی 35 فیصد لڑکیاں سکول نہیں جاتیں۔عالمی اقتصادی فورم کی سعدیہ زاہدی کے مطابق صحارائی افریقہ کے ممالک میں اگرچہ خواتین نے زیادہ ترقی نہیں کی تاہم وہ ضرورتاً ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ نارڈک ممالک کے اس فہرست میں اوپر رہنے کی وجہ وہاں حکومتوں کی جانب سے عوام کی بہبود میں دلچسپی کی روایت ہے وہ چھوٹی معیشت والے ممالک ہیں جن کی آبادی بھی کم ہے۔ وہاں ٹیلنٹ کی قدر کی جاتی ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت ہو ۔صنفی امتیاز کی عالمی رپورٹ کے مطابق سب سے کم امتیاز آئس لینڈ میں پایا گیا جبکہ فن لینڈ اس فہرست میں دوسرے، ناروے تیسرے اور سویڈن چوتھے نمبر پر رہا۔

ایشیائی ممالک میں سب سے کم امتیاز فلپائن میں پایا گیا جو مجموعی عالمی فہرست میں پانچویں نمبر پر رہا۔ ایشیا کی بڑی طاقتوں میں سے چین 69ویں ، جاپان 105ویں نمبر پر رہا۔دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل جرمنی کو فہرست میں 14ویں، برطانیہ کو 18ویں، کینیڈا کو 20 ویں اور امریکہ کو 23ویں نمبر پر رکھا گیا رپورٹ میں کہا گیا کہ صحت کے معاملے میں مردوں اور خواتین کے درمیان فرق 96 فیصد تک ختم ہو چکا ہے جبکہ تعلیم کے معاملے میں یہ شرح 93 فیصد ہے اور 25 ممالک میں لڑکوں اور لڑکیوں سے سکولوں میں یکساں سلوک روا رکھا جاتا ہے تاہم صحت اور تعلیم کے برعکس اقتصادی برابری کی شرح اب بھی 60 فیصد کے قریب ہی ہے اور چاہے وہ ترقی پذیر ممالک ہوں یا ترقی یافتہ، اقتصادی معاملات میں خواتین کی اہم عہدوں پر موجودگی کم ہی ہے۔

سعدیہ زاہدی کے مطابق اس رپورٹ کا مقصد غریب ممالک کو یہ یاد کروانا نہیں کہ ان کے پاس امیر ممالک کے مقابلے میں کم مواقع ہیں بلکہ انہیں حالات بہتر بنانے کے لیے ذرائع فراہم کرنا ہے۔انہوں نے کہاکہ خواتین کسی بھی معیشت یا کمپنی کے انسانی سرمائے کا نصف ہوتی ہیں اور اگر اس ٹیلنٹ سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا تو یہ مردوں اور خواتین دونوں کا نقصان ہے۔

متعلقہ عنوان :