صحرائے تھر میں زہریلے سانپوں نے بھوک و پیاس کے ستائے مکینوں کی زندگی اجیرن کر دی،امسال مختلف علاقوں میں1900سے زائد افراد کو سانپوں نے ڈس لیا،صرف 6صحت مراکز میں علاج کی سہولیات مہیا ہیں

ہفتہ 9 نومبر 2013 19:24

تھرپارکر(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔8نومبر۔2013ء) صحرائے تھر میں زہریلے سانپوں نے بھوک و پیاس کے ستائے مکینوں کی زندگی اجیرن کر دی، اس سال مختلف علاقوں میں1900سے زائد افراد کو سانپوں نے ڈس لیا۔ رپورٹ کے مطابق بین کی لے پہ بے خودی سے جھومنے والا انتہائی زہریلا سانپ کالا کوبرا ہے جو تھر کے صحرا میں جا بجا پایا جاتا ہے اور پھر کالا کوبرا ہی کیا ضلع تھر پارکر کی ریتیلی دھرتی درجنوں اقسام کے زہریلے اور بھیانک سانپوں کا مسکن ہے۔

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سال 2012 میں ضلع بھر میں2111افرادزہریلے سانپوں کا نشانہ بنے جبکہ سال رواں میں تاحال 1904لوگ سانپ کے کاٹنے سے زخمی ہو چکے ہیں۔تھر میں مجموعی طور پہ صحت کے چھوٹے بڑے 201صحت مرکز ہیں جن میں سے صرف چھ مراکز میں علاج کی سہولت لمحہ فکریہ ہے یہاں بھی اکثر اوقات ویکسین کی عدم دستیابی کی شکایات پائی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

سرکاری سطح پر سال بھر میں سانپ کے کاٹنے سے مرنے والوں کی تعداد صرف تین بتائی جاتی ہے جبکہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔

21975مربع کلو میٹرپر پھیلے تھر کے صحرا میں اب بھی سینکڑوں دیہات ایسے ہیں جہاں آمد و رفت انتہائی دشوار ہے اور ایسے دیہات سے سانپ کے ڈسے مریض کی منتقلی مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ ان علاقوں میں عامل، جوگی اور دیسی ٹوٹکوں سے ان مریضوں کا علاج کرتے ہیں ۔علاقے میں پےئن نامی سانپ خوف و دہشت کی علامت ہے جبکہ ہن کھن نامی زہریلی چھپکلی اور بچھوبھی انسانوں کے خطرناک ہیں۔یوں تو تھر کے صحرا کو موروں کی سرزمین کہا جاتا ہے مگر اس دھرتی پہ درجنوں اقسام کے زہریلے سانپوں کا بھی بسیرا ہے جن کے کاٹنے کے واقعات کی تعداد میں اضافہ تشویشناک ہے۔

متعلقہ عنوان :