عدلیہ مضبوط ہو چکی ،آئندہ کوئی ریاستی عہدیدار آمرکے غیر آئینی اِقدامات کی معاونت اور تحفظ کی جرات نہیں کر سکتا ، چیف جسٹس ،بدقسمتی سے عدالتی احکامات کو معنی و مفہوم کے مطابق نافذ نہیں کیا گیا ، گمشدہ افراد کے مقدمات بھی قابل توجہ ہیں ،امن کے بغیر معاشی ترقی اور خوشحالی نہیں ہو سکتی ،امن اور حالات کو معمول پر لانے کیلئے ، ہر ایک انفرادی طور پر ، بشمول جج صاحبان ، وکلاء ، قانون کے افسران ، تفتیشی اور پراسیکیوشن ایجنسیاں اور سائلین اپنا کردار ادا کرنے کے پابند ہیں ، انتظامیہ اپنی ذمہ داری ادا کر نے میں ناکام ہو جائے تو عدلیہ مدد کر نے کی پابند ہے ،بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے موذی مرض سے نہ نمٹے تو امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جائیگا ، لگتا ہے کہ ملک کے ایگزیکٹو کرپشن کے کینسر کو ختم کرنے میں بے بس ہیں ، امید ہے سپریم کورٹ جسٹس تصدق جیلانی کی قیادت میں انسانی حقوق کے لیے کام کرتی رہے گی ،لوکل گورنمنٹ کے آزاد و شفاف انتخابات کے انعقاد کے بغیر جمہوریت نا ممکن ہے ، مجھے یقین ہے عدلیہ جمہوریت کی مسلسل معاونت کرے گی ، عدلیہ کی خودمختاری تمام وکلاء برادری ، میڈیا ، سول سوسائٹی اور عوام کی کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہے ،وکلا ء قانو ن کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو جاری رکھیں،چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا فل کورٹ ریفرنس کے موقع پر الوداعی خطاب

بدھ 11 دسمبر 2013 15:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 11دسمبر 2013ء) چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے کہاہے کہ غیر آئینی راستے بند ہو چکے ہیں ، آئندہ کوئی ریاستی عہدیدار آمرکے غیر آئینی اِقدامات کی معاونت اور تحفظ کی جرات نہیں کر سکتا ،بدقسمتی سے عدالتی احکامات کو معنی و مفہوم کے مطابق نافذ نہیں کیا گیا ، گمشدہ افراد کے مقدمات بھی قابل توجہ ہیں ،امن کے بغیر معاشی ترقی اور خوشحالی نہیں ہو سکتی ،امن اور حالات کو معمول پر لانے کیلئے ، ہر ایک انفرادی طور پر ، بشمول جج صاحبان ، وکلاء ، قانون کے افسران ، تفتیشی اور پراسیکیوشن ایجنسیاں اور سائلین اپنا کردار ادا کرنے کے پابند ہیں ، انتظامیہ اپنی ذمہ داری ادا کر نے میں ناکام ہو جائے تو عدلیہ مدد کر نے کی پابند ہے ،بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے موذی مرض سے نہ نمٹے تو امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جائیگا ، لگتا ہے کہ ملک کے ایگزیکٹو کرپشن کے کینسر کو ختم کرنے میں بے بس ہیں ، امید ہے سپریم کورٹ جسٹس تصدق جیلانی کی قیادت میں انسانی حقوق کے لیے کام کرتی رہے گی ،لوکل گورنمنٹ کے آزاد و شفاف انتخابات کے انعقاد کے بغیر جمہوریت نا ممکن ہے ، مجھے یقین ہے عدلیہ جمہوریت کی مسلسل معاونت کرے گی ، عدلیہ کی خودمختاری تمام وکلاء برادری ، میڈیا ، سول سوسائٹی اور عوام کی کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہے ،وکلا ء قانو ن کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو جاری رکھیں۔

(جاری ہے)

بدھ کو اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے الوداعی خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاکہ میرے لیے یہ انتہائی باعث عزت ہے کہ میں آج آپ تمام سے مخاطب ہوں۔ میں ابتداء میں الله تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ نظامِ عدل کے انتظام، بشمول جج صاحبان اور عدالتی عملہ پر رحمتیں نازل کرے۔ ہمیں الله بصیرت اور استقلال عطا فرما ئیں کہ ہم ان مسائل پر قابو پا سکیں جنہوں نے قوم کو مصیبت میں ڈال دیااورآئندہ سالوں کی عدلیہ آئین میں وضح کردہ بنیادی حقوق اور سائیلین کو آزادانہ منصافانہ اور فوری انصاف فراہم کر سکے۔

انہوں نے کہاکہ آج میں اعلیٰ عدلیہ کے رکن کا مقدس لباس دو عشروں سے زائد عرصہ کے بعد اتار رہا ہوں اس میں بطور جج سپریم کورٹ اور 8سال چیف جسٹس کی مدّت شامل ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے لیے جمہوری ریاست کا تصّور پیش کیا تھا۔ بطور نا قابل تسخیر وکیل اور پالیمینٹیرین انہوں نے خود کو مثالی جمہوریت کیلئے وقف کر دیا۔ جبکہ ہم قائد اعظم کے تصّور کے مطابق زندگی گزارنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

اس کو مارشل لاء کے قابل نفرت تصّور سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، نہ جانے ماضی میں عدالتوں نے ایسے اقدامات کی توثیق کی۔ جیسا بھی ہے ،9مارچ 2007کو عوام کے ضمیر نے بہتری کی طرف رُخ کیا۔ آپ، جج صاحبان، وکلاء ، سول سوسائٹی کے سر کردہ ، سیاسی اراکین اور طلباء دستوریت، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی خود مختاری کو بچانے کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اپنے ان برادار جج صاحبان کی دیانت داری کا احاطہ کر سکوں جن کو 3نومبر 2007کے اقدامات کی پیروی میں اعلیٰ عہدہ سے ہٹا دیا گیا عدالت عظمیٰ اور عالیہ کے وہ جج صاحبان دنیا میں خراج تحسین کے اہل ہیں جنہوں نے آمر کے سامنے گردن جھکانے سے انکار کر دیا اور عدلیہ کی خودمختاری کی حفاظت میں کردار ادا کیا ۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ صرف جج صاحبان کی کوششیں نہیں تھیں۔ عدلیہ کی آج کی خودمختاری تمام وکلاء برادری کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ وکلاء تحریک کے دوران اعلیٰ عہدہ سے ہٹائے گئے جج صاحبان ہی متاثر نہیں ہوئے۔ عام وکلاء جو کبھی خبروں کی سرخیاں نہیں بنے انہوں نے مہینوں تک عدالتوں میں جانے سے انکار کر دیا انہوں نے اپنا روزگار اور مستقبل اعلیٰ مقصد کے لیے قربان کر دیا۔

ایک ایسا اعلیٰ مقصد جس کی سمجھ بوجھ زیادہ عوام کو نہیں اور نہ ہی وہ سمجھنا چاہتی تھی تاہم وہ عدلیہ کی آزادی کی اہمیت سے آگاہ تھی۔ وہ جانتے تھی کہ یہ ان کے لیے موقع ہے کہ وہ اپنے سے اعلیٰ کسی امر کا حصّہ بن جائیں، ایک ایسا موقع کہ ملک میں مثبت تبدیلی آجائے۔ قانونی اکھاڑے میں عوامی کردار نے وکلاء اور جج صاحبان کو اہم موقع دیا کہ وہ لوگوں کو موجودہ معاشی طریقہ اور اس میں مقام سمجھنے کی تعمیر نو کر سکیں۔

وکلاء تحریک میں جج صاحبان کانڈر کردار ہیچ ہوگیا جبکہ یہ بار کی مدد میں نہ تھا۔ وکلاء تحریک کی جمہوریت بحالی کی گراں قدر خدمات کو دستوری اساسوں میں قدر شناسی کی گئی ہے۔ میڈیا کی غیر جانبدارانہ اور با مقصد رپورٹنگ بھی قابلِ داد ہے۔ وکلاء تحریک کے دوران میڈیا پر شدید دباؤ ڈالا گیا لیکن انہوں نے اصولی نقطہ نظر سے ہٹنے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے کہاکہ عدلیہ کی بحالی کے بعد یہ میرا اور میرے برادر جج صاحبان کا لازمی فرض تھا کہ ہم یقینی بنائیں کہ آئندہ اس طرح کسی غاصب کو غیر آئینی طور پر پاکستان کی عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کے مقدمہ میں یہ قرار دینے کی سعی کی کہ کسی اتھارٹی کے اختیارات کو ہاتھ میں لینا بظاہر ایک کھلا غیر قانونی فعل ہے جبکہ ایسا آئین میں وضع نہ ہو ۔

ایسا خطرناک قدم کوئی عدالت تسلیم نہیں کرے گی اور اِس مد میں کسی جج کا کوئی بھی قدم آئین کے آرٹیکل 209کے تحت غیر اخلاقی حرکت کے زمرہ میں ہوگا ۔ اِس حوالہ سے پارلیمنٹ کا کردار بھی قابلِ ستائش ہے کہ اس نے آمر کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق نہیں کی۔ اِس فیصلہ نے یقینی بنایا کہ ملک میں حکمرانی مکمل طور پر آئین کے مطابق ہو۔ اب آئندہ کوئی ریاستی عہدہ دار آمرکے غیر آئینی اِقدامات کی معاونت اور تحفظ کی جرات نہیں کر سکتا۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ عدالت نے انصاف اور جمہوری اداروں کی تشکیل کے تناظر میں صدر آصف علی زرداری کا جمہوری انتخاب برقرار رکھا اگرچہ اُس نے عبوری آئینی حکم کے تحت چیف جسٹس سے حلف لیا تھا ۔ جبکہ ایسا نوزائیدہ جمہوری عمل کے جاری رہنے کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے کیا گیا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے نفاذ کے مقدس نظریہ کو دائمی کرنے کی کوشش کی ہے جس کو عالمی سطح پر حقِ زندگی سے ترجیح دی گئی ہے اور اِس نظریہ کو جسٹس سلیم اختر نے شہلا ضیاء کے مقدمہ میں مہارت سے اُجاگر کیا ۔

ہم نے اِس اصول کو برقرار رکھنے کی کوشش کی اور حقِ زندگی کے مفہوم کو وسیع کیا تاکہ اِ س امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ کسی کا حقِ زندگی اور آزادی تلف نہ ہواور اِس کو قانون کے تحت تحفظ دیا گیا ہم نے بالخصوص کراچی میں امنِ عامہ کی دگر گوں صورتِ حال کا نوٹس لیا، جہاں منصوبہ بندی سے قتل و غارت، مافیا اور منشیات ، لوگوں کی زندگی ، تحفظ اور امن کے لیے خطرہ بن رہے ہیں، سپریم کورٹ کو ایسے اہم مسائل کا نوٹس لینا جاری رکھنا چاہیئے کہ جہاں بنیادی حقوق ، بالخصوص زندہ رہنے کے حق کو روزمرہ کی بنیاد پر خطرہ لاحق ہو۔

اسی طرح عدالت نے صوبہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی عسکریت کے ضمن میں بھی ہدایات دیں۔ بدقسمتی سے عدالتی احکامات کو معنی و مفہوم کے مطابق نافذ نہیں کیا گیا ۔ گمشدہ افراد کے مقدمات بھی قابلِ توجہ ہیں۔ عدالت نے گمشدہ افراد کے مقدمات میں بار بار نوٹسز جاری کیے لیکن انتظامی عہدہ داران نے ان کی اکثر عدم تعمیل کی۔ ملک میں امن اور حالات کو معمول پر لانے کے لیے ، ہر ایک انفرادی طور پر ، بشمول جج صاحبان ، وکلاء ، قانون کے افسران ، تفتیشی اور پراسیکیوشن ایجنسیاں اور سائلین اپنا کردار ادا کرنے کے پابند ہیں ۔

امن کے بغیر معاشی ترقی اور خوشحالی نہیں ہو سکتی ۔چیف جسٹس نے کہاکہ انتظامیہ کی پہلی ذمہ داری ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے اگر انتظامیہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوتوعدلیہ پابند ہے کہ وہ انتظامیہ کی مدد کرے۔یہ اکثر کہا گیاکہ عدلیہ آئین کا ضرورتحفظ کرے۔عدلیہ کا اختیار ہے کہ وہ عوام کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں ،اختیارات کے غلط استعمال اور مطلق العنانی سے تحفظ فراہم کرے۔

ان کو یقینی بنانے کے لئے عدلیہ پچھلے چند سالوں سے درپیش مشکلات سے نبردآزما ہے تاکہ نظام عدل کو مزید بہتر کیا جاسکے ۔ایسے مقدمات مفاد عامہ کی بنیاد پر اٹھائے گئے بدیں امر ہمیں تنقید کا نشانہ بنا یا گیا کہ یہ پالیسی معاملات ہیں جو کہ انتظامیہ کا دائرہ کار ہیں۔ہم نے درحقیقت منصفانہ اور شفافیت کے صراحتی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر بنائی گئی پالیسی سے شہریوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ دینے کی کوشش کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں کامل عوامی نظم ونسق ابھی بہت دور ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا ملک قانون کے ضابطوں سے بھرا ہوا ہے لیکن اس کے نفاذ پر کم زور دیا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں کثیرقواعد اور قانونی ضابطے، زندگی،آزادی اور پاکستان کے لوگوں کی ملکیت کے تحفظ کیلئے موجود ہیں۔لیکن یہ نظر آتا ہے کہ ان قانونی ضابطوں کے نفاذ کی طرف ایک بے حسی پائی جاتی ہے ۔

ریاست کا یہ اختیارہے کہ ان قوانین ،قواعد اور قانونی ضابطوں کے نفاذ کو یقینی بنائے یہ نظر آتا ہے کہ مراعا ت اور عدم مراعات یافتہ کے درمیان فر ق دن بدن بڑھتا جارہا ہے اور انتظامیہ اس بڑھتی ہوئی تفریق کا تدارک کرنے میں ناکام ہے۔جب تک کہ ہم بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے موذی مرض سے نہیں نمٹیں گے امیر امیر تر ہوتا جائے گا اور غریب غریب تر ہوتا جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ حال ہی میں عدالتِ عظمیٰ نے مفادِ عامہ میں شفافیت اور انسدادِ بدعنوانی کے اصول کی بنیاد رکھی۔ عدالت نے اکثر مقدمات میں فعالیت سے عوامی مفاد کا پرچار کیا۔ ان مقدمات میں سے سٹیل ملز کا 2006 میں فیصلہ شدہ مقدمہ قابلِ ذکر ہے۔ عوامی تفریح گاہوں کے تحفظ کیلئے عدالتی اقدامات بھی قابلِ ذکر ہیں اس ضمن میں مولوی اقبال حیدر کا مقدمہ اور وفاقی ترقیاتی ادارہ کے خلاف ازخود کارروائی کا کیس جس میں وفاقی ترقیاتی ادارہ نے ایک بین الاقوامی فوڈ چین کو عوامی تفریحی پارک میں کاروبار چلانے کی اجازت دی تھی۔

عوام کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کی غرض سے عدالت نے اپنا ازخود نوٹس کا اختیار ایسے مواقع میں استعمال کیا جہاں انتہائی مفلس و نادار افراد متاثر تھے اور ان کا استحصال کرنے والوں نے ان کے بنیادی حقوق غضب کرنے کی کوشش کی۔ مَیں، اس ضمن میں ایک دفعہ پھر میڈیا کے کردار کو سراہتا ہوں ۔عدالت کی وائٹ کالر جرائم پر توجہ جاری رہنی چاہیے۔

وائٹ کالر جرائم جرم کی گھٹیا ترین قسم ہیں ان کے اثرات بہت وسیع ہیں جو براہِ راست عوام الناس کو متاثر کرتے ہیں کیونکہ اس میں قوامی خزانہ سے اربوں روپوں کی خوردبرد کی جاتی ہے۔ ہم نے بہت سے مالیاتی گھپلوں کا فیصلہ کیا جن میں حج بدعنوانی سکینڈل، ایل این جی کا مقدمہ اور حال ہی میں فیصلہ کردہ این آئی سی ایل کا مقدمہ شامل ہیں، جن کے تحت عوام کی لوٹی گئی اربوں کی دولت واپس لی گئی۔

ہم نے حال ہی میں این آئی سی ایل کے مقدمہ میں قرار دیا، جس کا میں یہاں حوالہ دے رہا ہوں کہ دیکھا گیا یہ اعلیٰ طبقہ ذاتی مفاد میں ملک میں غربت کے شکار لوگوں کے وسائل بھی ہڑپ کر گیا، لہٰذا آج وہ محتاجی اور بدبختی میں سخت انحطاط کی صورت حال کا شکار رہ گئے حکومتیں آتی جاتی ہیں لیکن بدعنوانی دائمی ہے جو نہ صرف رہتی ہے بلکہ اس کا حجم بھی بڑھتا ہے۔

ہماری زیادہ آبادی اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا رہائشی ہونے پر فخر کرتی ہے،لیکن ہم مذہب کے ا خلاقی عقیدہ کی پیروی میں ناکام رہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں حکم دیا ہے کہ ”اور اپنے مال آپس میں نا حق نہ کھاؤ اور نہ انہیں حاکموں تک پہنچاؤ کہ لوگوں کو مالوں کا ایک حصّہ جانتے بوجھتے ہوئے ناجائز طور پر کھاجاؤ“۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ بدعنوانی کے مہلک مرض کے تدارک میں بے یارو مددگا رہے میں صرف یہ امید کرتا ہوں کہ آئندہ اس میں بہتری آئے گی۔لوکل گورنمنٹ کے آزاد و شفاف انتخابات کے انعقاد کے بغیر جمہوریت نا ممکن ہے۔ عدالت نے اکثر مقدمات میں شفاف انتخابات کے انعقاد اور جعلی ووٹوں کے تدارک پر زور دیا ہے لیکن ان کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا گیا۔

حال ہی میں عدالت نے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے مقدمہ کی سماعت کی تا کہ آئین کے آرٹیکل140 A کے دستوری احکامات کی پیروی کو یقینی بنایا جا سکے اور صوبائی حکومتیں لوکل گورنمنٹ کے انتخابا ت منعقد کرواسکیں۔ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 62کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کے نظریہ کو نئی جہت عطا کی۔ اپنی تعلیم اور جائیداد کی بابت دروغ گوئی کرنے والوں کے لیے اب ممکن نہیں کہ وہ پاکستانی عوام کی نمائندگی کر سکیں۔

مجھے یقین اور اعتماد ہے کہ اس تناظر میں عدلیہ جمہوریت کی مسلسل معاونت کرے گی۔ہمیں شخصیات کی بجائے اداروں کو مدِنظر رکھنا چاہیے کیونکہ ادارے ملک کو ریاست بناتے ہیں ۔ عدالت ِعظمیٰ میں قائم انسانی حقوق کے شعبہ نے ملک میں عام آدمی تک انصاف کی رسائی کو ممکن کیا یہ شعبہ حقیقت میں بہت سارے از خود نوٹس کا باعث بنا ۔ یہ تمام مقدمات اعلیٰ شخصیات کے نہیں تھے بلکہ ان مقدمات کی بدولت عام آدمی کی انصاف تک رسائی ممکن ہوئی ۔

مجھے جسٹس تصدق حسین جیلانی ،مستقبل کے چیف جسٹس سے اُمید ہے وہ اس شعبہ کے کام اور فعالیت کی حمایت اور مزید بہتری کیلئے اپنا تعاون جاری رکھیں گے۔یہ میرے لیے باعثِ اطمینان ہے کہ عدلیہ کو آئین کے نفاذ اور ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی ذمہ داری کااحساس ہے ۔ عدلیہ اپنے فیصلوں کی بدولت آزادی کے باسٹھ سالوں کے بعد عوامُ الناس کو یہ بات ذہن نشین کرانے میں کامیاب ہوئی ہے کہ ان کی فلاح قانون کی حکمرانی او ر دستوریت کے بول بالا میں ہے ۔

ہر پاکستانی شہری کی طرح دل کی اتھاہ گہرائیوں سے میں بھی پاکستان سے محبت کرتا ہوں۔ جب میں اپنے ملک کے عمومی مسائل پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ جب تک ہم بانی پاکستان کے وژن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے، ہم پاکستان کو ایک ویلفےئر اسٹیٹ نہیں بنا سکیں گے جو بانی پاکستان کا مقصد تھا۔ میں قائداعظم کی تقاریر کے دو مختصر اقتسابات نقل کرتا ہوں، ایک تو سیاسی نظام کے بارے میں ہے، اُنہوں نے فرمایاکہ ”جمہوریت مسلمانوں کے خون میں رچی ہوئی ہے، جسے وہ آدمیت اور انسانیت کی مساوات خیال کرتے ہیں اور بھائی چارہ، مساوات اور حریت پہ یقین رکھتے ہیں“انہوں نے کہاکہ ہم کئی بار اس عدیم المثال سیاسی نظریہ سے انحراف کے مرتکب ہوئے۔

ہم نے اکثر جمہوریت کو ناکامی سے دوچار کیا، کبھی آمریت کوگُل کھِلانے کا موقع دیا اور کبھی اپنی ناقص حکومتی کارکردگی سے جمہوریت کی صورت ہی مسخ کر ڈالی۔دوسرا فرمان ملک کے معاشی نظام کے بارے میں ہے۔ قائد اعظم نے 1945ء میں ہی واضح کر دیا تھا کہ ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم امیروں کو امیر تر بنائیں اور چند افراد کے ہاتھوں میں ذخیرہ اندوزی کی کاروائی کو آگے بڑھائیں۔

ہمارا مقصد عوام کے درمیان معیشت کے عام معیار کو برابر سطح پر لانا ہے۔ ہمارا آئیڈیل سرمایہ دارانہ نظام نہیں بلکہ اسلامی نظام اور لوگوں کی فلاح اور رفاہی کام ہونے چاہیےئں اور اُنہیں مجموعی طور پر اپنے ذہن میں مسلسل رکھنا چاہیئے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قائد اعظم کی اس توقع کے برعکس ہمارے ملک میں امیر تو امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور ایک عام آدمی کی آمدنی کا گراف نیچے سے نیچے گرتا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ امن و امان کی کیفیت دہشت گردوں اور مجرموں کے ظلم و ستم سے اس قدر مخدوش ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کویہاں محفوظ نہیں پاتا۔ کوشش کے باوجود حکومت ملک میں امن کی فضا پیدا نہیں کر سکی۔انہوں نے کہاکہ اسی طرح اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے اور ان کے جان و مال کی حفاظت کے بارے میں قائد اعظم کے فرمان پر عمل میں نہیں کیا جا رہا ہے ، اُنہوں نے فرمایا تھا کہ اقلیتیں خواہ وہ کسی کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں، ان کی حفاظت کی جائے گی۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے ہاں ایک اور عذاب ہے جو ہماری قوم پر کسی نہ کسی طور بری طرح مسلط ہو چکا ہے اور وہ عذاب بدعنوانی ہے جو ہر شعبے میں پھیلتی جا رہی ہے۔ اس کا سد باب ضروری ہے۔ اِن مسائل کی طرف توجہ دینا حالیہ اور آئندہ کی ہر حکومت پر لازم ہے ،خواہ اس کے لئے موجودہ نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی ہی کیوں نہ لانی پڑے۔انہوں نے کہاکہ یہ فرض نا شناسی ہوگی اگر میں اپنی بیوی اور بچوں کے دائمی استقلال و حمایت اور بلخصوص گھروں میں نظر بندی کے دوران صبر وہمت کا شکریہ ادا نہ کروں ۔

میرے ساتھ ہمیشہ شانہ بشانہ کھڑا ہو کر میرے لیے جدو جہد کو آسان تر بنانے کا شکریہ۔میں آخر میں آپ سب کے تعاون کا شکر گزار ہوں جو آپ کی طرف سے مجھے بطور چیف جسٹس حاصل رہا، اس تعاون کے بغیریہ سب ناممکن تھا جو کہ بطور ادارہ عدالتِ عظمیٰ نے حاصل کیا ۔ اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ قانو ن کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو جاری رکھیں۔علاوہ ازیں ماضی کی تمام اچھی کاوشوں کو جاری رکھنے کی بھی ضرورت ہے اور آگے اس طرح بڑھیں کہ اس ادارہ کو نئی جہتیں ملیں تاکہ عدلیہ کے وقار اورانصاف کے نظام پہ لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہو۔