حکومت بچوں کی شرح اموات میں کمی لانے اور ماں کی صحت کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے پر عزم ہے،صوبے میں بریسٹ فیڈنگ لاء اور فوڈ سیفٹی ایکٹ پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا ، ڈاکٹر زپسماندہ علاقوں میں ڈیوٹی سر انجام دینے پر آمادگی ظاہرکریں ،صرف پیسے ہڑپ کرنا ہی بدعنوانی نہیں ، اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے بدیانتی اور ڈیوٹی کے اوقات میں کمی کرنا بدعنوانی ہے، صوبائی وزیر صحت شوکت علی یوسفزئی کاسیو دی چلڈرن کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب

منگل 24 دسمبر 2013 20:45

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24دسمبر۔2013ء) خیبر پختونخوا کہ وزیر صحت شوکت علی یوسفزئی نے کہاہے کہ حکومت صوبے میں بچوں کی شرح اموات میں کمی لانے اور ماں بچے کی صحت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے پر عزم ہے اور ترقیاتی شراکت داروں کے تعاون سے مناسب اقدامات کر رہی ہے۔مزید برآں مذکورہ مقاصد کے حصول کیلئے پرائمری ہیلتھ کیئر سسٹم کو مضبوط کرنے اور دیہاتوں میں تربیت یافتہ کمیونٹی مڈ وائف کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ بریسٹ فیڈنگ لاء اور فوڈ سیفٹی ایکٹ پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے گا تاہم مذکورہ اقدامات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ڈاکٹروں کو بھی عملی قربانی کا مظاہرہ کرنا ہوگا انہیں چاہیے کہ کم ازکم ایک سال کیلئے پسماندہ علاقوں میں ڈیوٹی سر انجام دینے پر آمادگی کااظہارکریں اور حکومت وقت کا ساتھ دیں وہ منگل کو ترقیاتی شراکت داروں کے تعاون سے سیو دی چلڈرن کے زیر اہتمام میونٹریشن کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمنٹیرینز، اراکین صوبائی اسمبلی،ترقیاتی شراکت داروں،تحریک تحفظ اطفال کے اراکین اور صحافیوں نے سیمینار میں شرکت کی۔ بریفنگ کے دوران ڈائریکٹر ایڈووکیسی(سیو دی چلڈرن) ارشد محمود ،ڈاکٹر پرویز اقبال پراچہ اورڈاکٹر قیصر علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں نیوٹریشن کی صورتحال،حکومتی اقدامات،بچوں کی شرح اموات کے تناسب اور مستقبل کے لئے مجوزہ پلان پر روشنی ڈالی جبکہ اراکین صوبائی اسمبلی کے موضوع پر اپنے خیالات کا تبادلہ کرتے ہوئے موثر پیش رفت کے لئے اپنی تجاویز و سفارشات بھی پیش کیں۔

صوبائی وزیر صحت شوکت علی یوسفزئی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے بریسٹ فیڈنگ لاء تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اس کی منظوری اسمبلی کے آئندہ ا جلاس میں ہو جائے گی اس قانون کے مطابق کوئی بھی ڈاکٹر پہلے چھ ماہ تک بچوں کے لئے کسی بھی مصنوعی غذا کو ماں کے دودھ کے متبادل کے طور پر تجویز نہیں کر سکے گا۔قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اس کے علاوہ مارکیٹ میں دستیاب دودھ کے ہر ڈبے پر لکھنالازمی ہوگاکہ ماں کا دودھ ہی سب سے بہتر ہے جس سے بچوں کو انفیکشن سے بچانے کے لئے کافی مدد ملے گی۔

انہوں نے ڈاکٹروں پر زور دیا کہ وہ صحت کے علمبردار ہیں لہذا انہیں بچوں کیلئے مصنوعی غذاؤں کو متبادل کے طور پر فروغ دینے سے گریزکرناچاہیے۔ انہوں نے کہا کہ صرف پیسے ہڑپ کرنا ہی بدعنوانی نہیں بلکہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے بدیانتی اور ڈیوٹی کے اوقات میں کمی کرنا بھی بدعنوانی میں شامل ہے

متعلقہ عنوان :