پولیو کا وبائی مرض جلد کسی دھماکے کی صورت میں پھٹ پڑے گا ، ڈبلیو ایچ او اور یونیسف کا انتباہ

جمعرات 9 جنوری 2014 15:35

لاہور(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 9جنوری 2014ء) ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) اور یونیسیف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پولیو کا وبائی مرض جلد کسی دھماکے کی صورت میں پھٹ پڑیگا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق 2013ء کے دوران فاٹا کے علاقے میں ڈھائی لاکھ بچوں کو پولیو ویکسین پلانے کیلئے رسائی حاصل نہیں کی جاسکی تھی، اس لیے کہ طالبان نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پولیو ویکسین پلانے پر پابندی لگا رکھی تھی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) اور یونیسیف کی جانب سے حکومت کو بھیجی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ وبائی مرض آنے والے دنوں میں کسی دھماکے کی صورت پھٹ پڑے گا۔

رپورٹ کے مطابق ایسے بچے جن تک رسائی نہیں ہوسکی اور جو موجود نہیں تھے پنجاب کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہیں اس لیے کہ ستمبر 2013ء کی مہم کے دوران دونوں طرح کی تعداد ایک لاکھ 34 ہزار 877 تک پہنچ گئی تھی جو سر فہرست ہے۔

(جاری ہے)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پولیو کے خاتمے کی مہم میں شراکت داروں کیلئے ایک مضبوط چیلنج بن چکا ہے۔پنجاب سے خیبرپختونخوا ایک لاکھ سولہ ہزار نو سو اٹھانوے کی تعداد کے ساتھ اور سندھ بہتر ہزار تین سو تیس کی تعداد کے ساتھ کافی دور ہیں۔

پولیو مہم کے دوران ایسے بچے جن تک رسائی نہیں ہوسکی اور جو اس وقت گھر پر موجود نہیں ہوتے، کے مسائل کو پولیو کے خاتمے کی مہم میں شامل شراکت دار ویکسین پلانے کیلئے برادری کے حصوں تک رسائی میں سست روی سے کام لینے، ٹیموں کی عدم دستیابی یا پولیو ویکیسن پلوانے سے انکار کو قرار دیتے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق نمونے کے طور پر انفیکشن سے محفوظ بنانے کے قومی دن کے دوران تین سو بچے موجود نہیں تھے جبکہ دو سو پانچ کی تعداد تک رسائی ممکن نہیں تھی اس کے ساتھ ساتھ ایک سو بارہ بچوں کو اس لیے ویکسین پلائی نہیں جاسکی کہ ویکسینیشن ٹیم موجود نہیں تھی۔

اس مثال میں صرف نو بچوں کو ویکسین پلوانے سے انکار کیا گیا، جو کل تعداد کا تین فیصد ہے۔پنجاب میں پولیو ویکسین پلوانے سے انکار کرنے کا تناسب دیگر صوبوں کے مقابلے میں کم ہے پنجاب میں ویکسین پلوانے سے انکار کے تین ہزار کیس رپورٹ کیے گئے۔پاکستان میں لاکھوں ڈالرز کی ویکسین کا ہرسال ضائع ہوجانا، پولیو مہم کے شراکت داروں کیلئے اتنہائی تشویش کا باعث بن رہا ہے۔

پنجاب میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں ویکسین کے ضایع ہونے کا تناسب خاصا کم ہے۔انفیکشن کے خلاف مہم کے قومی دن کے دوران اس صوبے میں ویکسین کے زیاں کی سات فیصد شرح ریکارڈ کی گئی تھی تاہم سب سے بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے پنجاب میں زیادہ سے زیادہ ویکسین کی خوراک ایک کروڑ ستاسی لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ایک کروڑ چوہتر لاکھ سے زیادہ بچوں کو ویکسین کے قطرے پلائے گئے تھے سندھ اس معاملے میں زیادہ قریب ہے، جہاں پولیو ٹیم کی وجہ سے آٹھ فیصد تک ویکسین ضائع ہوجاتی ہے۔

پچاسی لاکھ سے زیادہ پولیو کے قطروں کی خوراکوں کے ساتھ اٹھہتّر لاکھ بچوں کو اس صوبے میں ویکسین پلائی گئی۔ویکسین ضائع ہونے کی شرح بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دس فیصد ہے۔2013ء کے دوران رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں پولیو ویکسین پلوانے سے بڑی تعداد میں انکار کیا گیا جو آئندہ ایک مسلسل اور بڑے چیلنج کی جانب اشارہ کرتا ہے۔پولیس اور پولیو مہم کے ورکرز کو لاحق خطرات ایک پریشان کن چیلنج بن رہے ہیں۔

جولائی 2013ء سے ملک بھر میں ہیلتھ ورکروں پر حملوں میں 31افراد ہلاک کیے جاچکے ہیں۔خیبرپختونخوا میں ستمبر کی پولیو کے خاتمے کی قومی مہم کے دوران تریپن ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کیا گیا تیس فیصد سے زیادہ تعداد میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے تاہم اب بھی ایسے گھرانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو پولیو ویکسین کی مخالفت کرتے ہیں۔

سندھ میں اٹھارہ ہزار اور بلوچستان میں آٹھ ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کیا گیا صرف کراچی میں رپورٹ کے مطابق سولہ ہزار بچوں کو پولیو ویکسین پلوانے سے انکار کیا گیا۔پاکستان بھر میں رپورٹ کیے جانے والے پولیو کے کیسز کی 83 فیصد تعداد فاٹا اور خیبرپختونخوا سے رپورٹ ہوئی ہے۔صرف شمالی وزیرستان ایجنسی میں ستائیس پولیو کیس رپورٹ کیے گئے، جو اشارہ کرتے ہیں کہ اس قبائلی ایجنسی میں وائرل سرکولیشن بہت شدید ہے۔

متعلقہ عنوان :