طالبان سے مذاکرات کا میکنزم درست نہیں ، مولانا فضل الرحمن، مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں آپریشن کی بات کرنا مناسب نہیں، ایک ڈاکٹر سے مریض صحت یاب نہ ہو تو اسے قصاب کے حوالے کرنے کے بجائے کسی اور ڈاکٹر کا نسخہ استعمال کرنے میں ہی دانشمندی ہے، مسئلہ کے حجم کے برعکس معاملات کو حل کرنے کیلئے حکمت عملی اختیار کی گئی، مذاکرات کی کا میابی کے خواہاں اور دعا گو ہیں،سربراہ جے یو آئی

جمعرات 20 فروری 2014 20:07

ڈیرہ اسما عیل خان(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20 فروری ۔2014ء) جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ اور قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا میکنزم درست نہیں اور مسئلہ کے حجم کے برعکس معاملات کو حل کرنے کے لیئے حکمت عملی اختیار کی گئی تاہم اس کے باوجود ہم مذاکرات کی کا میابی کے خواہاں اور دعا گو ہیں۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے پیرآف زکوڑی شریف پیر فواد رضا زکوڑی کی جانب سے دیئے گئے استقبالیہ سے خطاب کے دوران کیا، اس موقع پر صاحبزادہ ضیاء الرحمان، مولانا اسعد محمود، پیر مشتاق احمد جان زکوڑی، پیر عبدالوحید زکوڑی ، خانقاہ زکوڑی شریف کے مریدین اور معززین علاقہ کی بڑی تعداد موجود تھی،مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف مسئلے کے حل میں مثبت سوچ کے حامل ہیں اور ان کی جانب سے معاملات کی ذاتی طور پر نگرانی کی یقین دہانی کی وجہ سے ہم نے ان پر اعتماد بھی کیا مگر محسوس یوں ہو ریا ہے کہ قلیدی قوت کوئی اور ہے، انہوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے لیئے سیاسی حکومت کی جانب سے قائم کمیٹی غیر سیاسی افراد پر مشتمل ہے،اور طالبان ایک غیر سیاسی قوت ہیں اور ان کی نمائندہ کمیٹی سیاسی افراد پر مشتمل ہے ، جو انتہائی حیران کن ہے ،انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مذاکرات شروع کرنے سے قبل مذاکرات کو ایک اور موقع دینے کے فقرہ سے کئی سوالات جنم لے چکے ہیں ، انہوں نے کہا کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں آپریشن کی بات کرنا مناسب نہیں اگر ایک ڈاکٹر سے کوئی مریض صحت یاب نہ ہو تو کیا اسے قصاب کے حوالے کردینا چاہیئے، نہیں بلکہ کسی اور ڈاکٹر کا نسخہ استعمال کرنے میں ہی دانشمندی ہے، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ابتدائی طور پر اس مرض کا علاج بھی حکیموں سے کرایا جا رہا ہے ،انہوں نے کہا کہ قبائلی جرگہ کو طالبان سے مذاکرات کا اختیار اور حق کنونشن سنٹر میں ملک کی قومی سیاسی قیادت نے دیا تھا اور قبائلی رسوم و رواج ، لب و لہجہ کو قبائلی جرگہ سے بہتر کوئی اور نہیں سمجھ سکتا اور یہی فورم مذاکرات کا بہترین رابطہ کار بن سکتا تھا تاہم ہماری اس تجویز کو رد کردیا گیا، مگر ہم اپنی تجویز کو رد کرنے کی بناء پر ایک اچھے اقدام کی مخالفت کی سیاست کے قائل نہیں اسی لیئے مذاکرات کی کا میابی کی نوید سننے کے لیئے دعاگو ہیں، انہوں نے کہا کہ فریقین کی جانب سے ایک دوسرے پر زیادتیوں کے الزامات لگا کر شدت پر مبنی کارروائیوں کا جواز ظاہر کرنا جرگہ اصولوں کے منافی ہیں ، کسی بھی ایک فریق کی جانب سے اگر کسی معاملہ میں دوسرے فریق کو تحفظات ہوتے ہیں تو جرگہ کے قیام کے بعد پہلے اپنی تشویش سے جرگہ ممبران کو آگاہ کرنا ہی روایات ہیں مگر یہاں جرگہ ممبران کو تشویش سے آگاہ کرنے کی روایت نظر نہیں آتی یا انہیں پھر اس قابل نہیں سمجھا جا رہا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سب بھی مشاورت کی جائے گی ہم ملک و قوم اور شریعت محمدی کی تعلیمات کے مطابق مخلص مشورہ دینے میں بخل سے کام نہیں لیں گے، جمعیت علمائے اسلام کو وفاقی وزارتوں میں محکمہ جات کی سپردگی میں تعطل کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر مولانا فضل الرحمان مسکرادئے اور کہا کہ محبت میں راز کی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھی اور بتائی نہیں جاتیں ۔

(جاری ہے)

مذاکرات میں دیڈلاک کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر مولانا فضل الرحمان ایک بار پھر مسکرائے اور صرف یہی مصرع کہابنے گی اس طرح تصویر جاناں ہم نہ کہتے تھے اس موقع پر پیر فواد رضا زکوڑی نے استقبالیہ میں مولانا فضل الرحمان کی شرکت پر ان کا اور تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، تقریب کے اختتام پر پیر مشتاق احمد جان زکوڑی نے دعا کرائی۔