پنجاب اسمبلی میں ادائیگی اجرت 2014ء سمیت تین بلوں کی منظوری ،اپوزیشن کی تمام ترامیم کو مسترد کر دیا گیا، ایوان میں چار بل بھی متعارف کرائے گئے جنہیں متعلقہ کمیٹیوں کے سپرد کر دیا گیا ،پانی چوری کے جرم کو ناقابل ضمانت قرار دینے پر غور کیا جارہا ہے، وقفہ سوالات،احتجاج کرنیوالی نرسز اپنی ملازمت کیلئے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے قسمت آزمائیں ،تجربے کے اضافی نمبر دئیے جائینگے، خواجہ سلمان رفیق،ایڈ ہاک پر 2800نرسز ہیں جنہیں مستقل نہیں کیا جا سکتا ،کنٹریکٹ پرکام کرنے والی نرسز کو مستقل کر دیا جائیگا، مشیر برائے صحت

جمعرات 13 مارچ 2014 19:31

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13مارچ۔2014ء) پنجاب اسمبلی کے ایوان نے ادائیگی اجرت 2014ء سمیت تین بلوں کی منظوری دیدی ،اپوزیشن کی تمام ترامیم کو مسترد کر دیا گیا ، ایوان میں چار بل بھی متعارف کرائے گئے جنہیں متعلقہ کمیٹیوں کے سپرد کر دیا گیا ،جبکہ وقفہ سوالات میں ایوان کو آگاہ کیا گیا ہے کہ قانون میں ضروری ترامیم کرکے پانی چوری کے جرم کو ناقابل ضمانت قرار دینے بارے غور کیا جا رہا ہے،پوٹھوہار کے بارانی علاقوں میں حکومت 12ڈیم بنانے کا ارادہ رکھتی ہے جن میں سے 8زیر تعمیر ہیں ۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت دس بجے کی بجائے ایک گھنٹہ کی تاخیر سے قائمقام اسپیکر سردار شیر علی گورچانی کی صدارت میں شروع ہوا ۔ اجلاس میں بدھ کے روز کورم کی نشاندہی کی وجہ سے ادھورے رہ جانے والے بل شہروں کی ترقی پنجاب 2014ء،گیریژن یونیورسٹی2014ء اورادائیگی اجرت بل2014ء بل کثرت رائے سے منظور کر لئے گئے ۔

(جاری ہے)

دو بلوں میں اپوزیشن کی طرف سے 10ترامیم ایوان میں پیش کی گئیں جنہیں کثرت رائے سے مسترد کر دہا گیا ۔

قبل ازیں ایوان میں محمد نواز شریف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی ملتان2014ء،صنعتی تعلقات عامہ ترمیمی بل2014ء،تولیدی‘دوران حمل،نومولود بچگان صحت اتھارٹی بل2014ء اور مینٹل ہیلتھ ترمیمی بل2014ء ایوان میں پیش کئے گئے جنہیں متعلقہ قائمہ کمیٹیز کے سپرد کردیا گیا ۔ قبل ازیں ایوان میں صوبائی وزیر آبپاشی میاں یاور زمان نے وقفہ سوالات کے دوران جوابات دئیے ۔

جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی سید وسیم اختر کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے بتایا کہ پیڈا کے زیر انتظام 401نہروں پر کسان تنظیمیں کام کر رہی ہیں ۔ارسا کی جانب سے پنجاب کو اس کے حصے کے مطابق پانی فراہم کیا جارہا ہے اور اگر پانی مجموعی طور پر کم ہو تو صوبوں کے حصے کے پانی میں بھی کمی ہو تی ہے ۔ پنجاب کی نہروں کو اس طرح چلایا جاتا ہے کہ فصلوں کی بوائی اور پکائی کے دوران ضرورت کے مطابق پانی مہیا ہو سکے ۔

انہوں نے بتایا کہ ایک سال کے دوران پانی چوری پر 7155ایف آئی آر زکا اندراج کیا گیاجبکہ 1464افراد کو پانی چوری کرنے پر گرفتار کیاگیا۔لاہورہائیکورٹ کی فلڈ انکوائری رپورٹ ٹربیونل رپورٹ کے مطابق پیڈا ایکٹ 2006ء کے تحت تمام افسران کو سزا ئیں دی گئیں ۔پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی فائزہ ملک کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے ایوان کو آگاہ کیا کہ ضلع لاہور میں 2011-13تک 5ملین روپے سے زائد سے اخراجات بھل صفائی کی گئی اوردوران کسی بھی افسر یا اہلکار کے خلاف کرپشن یا خرد برد کی کوئی شکایت نہیں ملی ۔

نگہت ناصر شیخ کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے ایوان کو آگاہ کیا کہ پانی چوری کے خلاف موجود قانون میں ضروری ترامیم کرکے پانی چوری کے جرم کو ناقابل ضمانت بنانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔سردار وقاص موکل کے سوال کے جواب میں تحریری طور پر ایوان کو بتایا گیا کہ 2010ء میں غیر قانونی طور پر بند توڑنے کے واقعات کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں کمیشن بنایا گیا جس کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ نے تمام ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کر دی ہے ۔

علاوہ ازیں حکومت پنجاب کے مشیر برائے صحت خواجہ سلمان رفیق نے احتجاج کرنے والی نرسز کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی ملازمت کے لئے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے قسمت آزمائیں جہاں انہیں تجربے کے اضافی نمبر دئیے جائیں گے۔ نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ ایڈ ہاک پر 2800نرسز ہیں جنہیں مستقل نہیں کیا جا سکتا ۔ پبلک سروس کمیشن کی ایک حیثیت ہے اسے بائی پاس نہیں کر سکتے تاہم آٹھ سو نرسیں جو کنٹریکٹ پرکام کر رہی ہیں انہیں مستقل کر دیا جائیگاجبکہ ڈیپارٹمنٹل پروموشن بورڈ کے تحت انکی ترقی بھی کی جائے گی جسکے بعد مجموعی طور پر تقریباًچار ہزار کے نرسز بھرتی کی جائیں گی ۔

خواجہ سلمان رفیق نے بتایا کہ 2800میں سے 1450نرسز پبلک سروس کمیشن میں جا چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کو رہائشگاہوں کا مسئلہ ہے جسکے لئے حکومت نے دس کروڑ روپے کی رقم مختص کر دی ہے۔ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے دوسرے روز بھی ایوان میں الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب یوتھ فیسٹول میں مالی کرپشن کی جارہی ہے ۔جسکے جواب میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ یوتھ فیسٹول کا باقاعدہ آڈٹ کرایا گیا ہے اوراس میں بد عنوانی کا کوئی پہلو سامنے نہیں آیا ہم پھر تحقیقات کرا لیں گے اور اپوزیشن کو فیصلہ تسلیم کرنا چاہیے ۔