صحرائے تھر میں خشک سالی ، قحط اور بیماریوں سے نمٹنے کیلئے وفاقی و صوبائی حکومتیں بڑھ چڑھ کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں،گورنرسندھ، خشک سالی اور قحط سالی نے انسانی المیے کو جنم دیا ،معصوم جانوں کے لقمہ اجل بننے پرہر شخص افسردہ ہے ،حکومت نے ہر تعلقہ میں 24 ریلیف سینٹرز قائم کئے ہیں،17ویں مڈ کیریر مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے گفتگو

جمعرات 13 مارچ 2014 20:05

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13مارچ۔2014ء) گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے کہا ہے کہ صحرائے تھر میں خشک سالی ، قحط اور بیماریوں سے نمٹنے کے لئے وفاقی و صوبائی حکومتیں ، مقامی انتظامیہ ، افواج ، نیشنل ڈز اسٹر مینجمنٹ، این جی اوز اور مخیر حضرات بڑھ چڑھ کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں اور بہت جلد تھری بھائیوں کو ان مشکلات سے نجات مل جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ خشک سالی اور قحط سالی نے انسانی المیے کو جنم دیا ہے جس میں معصوم جانیں لقمہ اجل بن گئیں جس پر ہر شخص افسردہ ہے حکومت نے ہر تعلقہ میں 24 ریلیف سینٹرز قائم کئے ہیں اور کوشش یہی ہے کہ سامان تمام متاثرین تک پہنچتا رہے کیونکہ تھر صحرائی علاقہ ہے جہاں کافی فاصلے سے چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف حالات کا جائزہ لینے خود تشریف لائے اور ایک ارب روپے دینے کا اعلان کیا ساتھ ہی صوبائی حکومت کو ہر قسم کی حمایت کا بھی یقین دلایا ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گورنر ہاؤس میں 17ویں مڈ کیریر مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے گفتگو میں کیا ۔ اس موقع پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری ریاض میمن ، اسپیشل سیکریٹری داخلہ رسول بخش سمیجو ، ڈپٹی سیکریٹری فنانس محمد شکیل ، ایڈیشنل سیکریٹری بلدیات بخش علی مہر سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی شریک تھے ۔ گورنر سندھ نے کہا کہ کراچی اقتصادی حب اور ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والا شہر ہے یہ انڈسٹریل حب بھی ہے آپریشنل سی پورٹس بھی اسی شہر میں ہیں اقتصادی اہمیت کا حامل شہر پورے ملک کا 60 سے 70 فیصد ریوینیو فراہم کرتا ہے سرمایہ کار کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ اس شہر میں اپنا سرمایہ لگائے ۔

انہوں نے کہا کہ ہر شخص اس شہر میں امن و امان کے قیام کا خواہش مند ہے کراچی کے حالات میں چار بڑے عوامل کا رفرما ہیں جس میں دہشت گردی ، اغوا برائے تاوان ، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری شامل ہیں چونکہ اس شہر کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اس لئے ملک کے کسی بھی کونے میں ہونے والے واقعہ کا ردعمل بھی سب سے زیادہ یہیں رونما ہوتا ہے دہشت گردی ملک کے دیگر حصوں میں بھی ہورہی ہے جس میں کالعدم تنظیمیں ملوث ہیں اغوا برائے تاوان کے 70 سے 80 فیصد واقعات ملک کے دیگر علاقوں سے منسلک ہوتے ہیں اسی طرح بھتہ خوری کی وارداتوں کا لنک بھی کالعدم تنظیموں سے جاملتا ہے جبکہ ٹارگٹ کلنگ میں بھی کالعدم تنظیمیں ، سیاسی جماعتیں اور فرقہ وارانہ تنظیمیں شامل ہیں 2 مارچ کو عباس ٹاؤن سانحہ کے بعد شہر میں جرائم کیخلاف ٹارگٹڈ کارروائیاں شروع کی گئیں جس کے بعد کالعدم تنظیمیں اوران کے نام پر کام کرنے والی تنظیموں کے بہت سارے لوگ پکڑے گئے اسی دوران انتخابات بھی تھے انتخابات میں انتہائی سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے دو (۲)خود کش حملہ آور اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے اللہ کا شکر ہے کہ انتخابات پر امن ماحول میں منعقد ہوئے ۔

انہوں نے کہا کہ کراچی شہر میں تھریٹس بہت ہیں لیکن موئثر حکمت عملی اور سخت سیکیورٹی کے باعث واقعات کی روک تھا م میں بے حد مدد مل رہی ہے ۔ ایک سوال پر گورنر سندھ نے کہا کہ گزشتہ برس اگست میں لیاری میں حالات زیادہ خراب ہونا شروع ہوئے جس کے باعث مقامی لوگوں کی بڑی تعداد نے دوسرے علاقو ں کا رخ کرنا شروع کیا جس پر وزیر اعظم نے کراچی آکر حالات کا جائزہ لیا ستمبر میں وفاقی حکومت کی ہدایت پر جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا اس دوران دہشت گردوں نے پوری کوشش کی لیکن بڑی واردات کرنے میں وہ ناکام رہے یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مثالی کارکردگی کے باعث ہی ممکن ہوا ۔

انہوں نے کہا کہ اغوا ء برائے تاوان کی وارداتوں میں ستمبر سے شروع ہونے والے ایکشن کے بعد کمی آئی ہے اکتوبر میں مقابلوں میں 26 بھتہ خور مارے گئے جس سے بھتہ خوری کی وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جرائم پیشہ عناصر سیاسی جماعتوں کا نام استعمال کرتے ہیں سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر لیکر ان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کامیاب کارروائی کی گئی ۔

گورنر سندھ نے کہاکہ کراچی شہر میں امن و امان کے قیام میں قانون نافذ کرنے والے ادارے قربانیاں دے رہے ہیں ۔ ایک سوال پر گورنر سندھ نے کہا کہ توانائی کا بحران پورے ملک میں ہی ہے لیکن سب سے زیادہ سامنا کراچی کو کرنا پڑا صوبہ سندھ پورے ملک کو 60 سے 70 فیصد گیس فراہم کرتا ہے لیکن اپنی ضروریات سے بھی کم گیس ملتی ہے جو کہ آئینی مجبوری ہے جس سے توانائی بحران میں شدت آئی چار برس قبل ایک ایسا وقت بھی آیا جب انڈسٹریل ایریاز میں آٹھ سے بارہ گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کی جانے لگی طویل لوڈ شیڈنگ سے انڈسٹریاں بند ہو نا شروع ہوئیں جس سے بہت بڑی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوئے ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے ایک پالیسی بنائی جس میں کے الیکٹرک کو پابند کیا گیا کہ وہ پاور جنریشن کو بڑھائے اور انڈسٹریز کو صفر لوڈشیڈنگ تک لے جایا جائے آج پوزیشن یہ ہے کہ انڈسٹریز صفر لوڈشیڈنگ پر آگئی ہیں اور 70 فیصد رہائشی علاقوں میں بھی لوڈشیڈنگ صفر ہے 25 فیصد علاقے ایسے ہیں جہاں بجلی چوری کی شکایات میں وہاں لو ڈ شیڈنگ کی جارہی ہے اور ان علاقوں میں تین سے ساڑھے تین گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے ۔

بعد ازاں مڈ کیریر منیجمنٹ کورس کی ڈائریکٹر جنرل نگہت مہروز نے ادارے کی طرف سے گورنر سندھ کو شیلڈ پیش کی گورنر سندھ نے انھیں گورنر ہاؤس کی شیلڈ پیش کی ۔

متعلقہ عنوان :