شہدادپور انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں مریضوں کے لئے ادویات نایاب ہو گئیں ،ادویات کی مد میں کروڑ سے زائد فنڈز مختص ہونے کے باوجود مریضوں سے سرنج اور کنولے کے پلاسٹر تک پرائیویٹ اسٹورز سے منگوائے جاتے ہیں

ہفتہ 5 اپریل 2014 19:57

شہدادپور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔5اپریل۔2014ء)شہدادپور انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں مریضوں کے لئے ادویات نایاب ہو گئیں ، ادویات کی مد میں ایک کروڑ سے زائد فنڈز مختص ہونے کے باوجود مریضوں سے سرنج اور کنولے کے پلاسٹر تک پرائیویٹ اسٹورز سے منگوائے جاتے ہیں ، انسٹیٹیوٹ عوام کے لئے وبال جان بن گیا ۔ تفصیلات کے مطابق شہدادپور انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جوکہ پورے سندھ میں مینجمنٹ اور سہولیات کے حوالے سے دوسرے نمبر پر گردانا جاتا ہے۔

شہدادپور سمیت گردونواح کے شہروں اور دیہاتوں کی عوام کے لئے وبال جان بن چکا ہے اس کے تمام وارڈز میں مریض ڈاکٹروں کی بے حسی کی وجہ سے تڑپتے نظر آتے ہیں۔ انتہائی با خبر ذرائع کے مطابق انسٹی ٹیوٹ میں غریب مریضوں کوادویات کی فراہمی کے لئے تقریباً سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد کا فنڈ مختص ہے لیکن حالات یہ ہیں کہ کوئی بھی مریض ایمرجنسی یا دوسرے وارڈ میں داخل ہوں ان سے ڈاکٹر حضرات انجکشن لگانے کے لئے سرنج اور کنولہ لگانے کے لئے پلاسٹر سلوشن ٹیپ تک باہر کے اسٹور سے منگواتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اگر چوٹ یا زخم ہو تو باندھنے کے لئے بینڈیج تک پرچی پر لکھ کر مریض سے باہر اسٹور سے منگوائی جاتی ہے ۔ شہدادپور انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں داخل مریضوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ڈاکٹروں کا یہ حال ہے کہ ایمرجنسی یا دوسرے وارڈز میں مریض تڑپ رہے ہوتے ہیں اور ڈاکٹر حضرات خوش گپیاں لگا رہے ہوتے ہیں ان کا زیادہ تر دھیان ادویات بنانے والی کمپنیوں کے میڈیکل ریپ پر ہوتا ہے جو کہ ڈاکٹر کو مریضوں کے لئے اسٹور اپنی کمپنیوں کی ادویات کے اچھے خاصے سیمپل اور بمبئی بیکری کے کیک تحفے کی صورت میں دے کر لالچ دیتے ہیں ۔

دوسری جانب لائنوں میں کھڑے مریضوں نے صحافیوں کو بتایا کہ مریضوں کی او پی ڈی میں پرچی بنانے والا پرچی کی مقرر فیس ایک روپیہ کے بجائے پانچ روپے سے دس روپے دینے کی صورت میں واپس نہیں دیتا ہے ۔ اسپتال میں مریضوں کو چیک کرانے کیلئے آنے والے دیہاتیوں اور شہریوں سے موٹر سائیکل کھڑی کرنے کی فیس 10سے 20روپے وصول کی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ مریضوں نے شکایت کی کہ بعض اوقات ایمرجنسی کی صورت میں بجلی جانے پر سخت ضرورت کے باوجود جنریٹر نہیں چلایا جاتا ۔ اس سلسلے میں صحافیوں نے انسٹیٹیوٹ کی میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر مریم مجید چھٹو سے مئوقف جاننے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے یہ کہ کر مئوقف دینے سے انکار کر دیا کہ میں اپنی پرایئویٹ کلینک میں موجود ہوں اس وقت میں ٹائم نہیں دے سکتی ۔