بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی وجہ خوراک کی کمی ، بارش نہ ہونے کے ساتھ محکمہ صحت کی لاپروائی ہے ، سیشن جج کی رپورٹ

بدھ 9 اپریل 2014 17:02

کراچی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 9اپریل 2014ء) سندھ کے صحرائی علاقے تھر کے ایڈیشنل سیشن جج اور امدادی کاموں کے نگران جج میاں فیاض ربانی نے قرار دیا ہے کہ بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی وجہ خوراک کی کمی یا عدم دستیابی اور بارش نہ ہونے کے ساتھ ساتھ محکمہ صحت کی لاپروائی، ڈاکٹروں اور طبی عملے کی غیر حاضری ہے۔سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر نے تھر میں قحط سالی کے متعلق درخواست پر ایڈیشنل سیشن جج کو اپنی سفارشات پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔

ایڈیشنل سیشن جج میاں فیاض ربانی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بھوک اور قحط نے حاملہ خواتین اور بچوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ کی حکومت جو گندم تقسیم کر رہی ہے وہ 50 کلوگرام فی خاندان ہے جن میں غیر شادی شدہ افراد شامل نہیں۔

(جاری ہے)

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ غیر شادی شدہ افراد کھانا نہیں کھاتے یا وہ متاثرین نہیں۔

انھوں نے سفارش کی ہے کہ مقررہ وقت کے اندر گندم، خوراک اور چارے کی منصفانہ تقسیم کی جائے۔ انھوں نے گذشتہ انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان انتخابات میں ضلعے میں 515 پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے تھے جہاں تک ہر ووٹر کو رسائی تھی، ہر فرد کو ووٹ دینے کے لیے تمام تر سامان ان سٹیشنوں تک پہنچایا گیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ امدادی سامان ہر جگہ نہیں پہنچ پایا۔

میاں فیاض ربانی نے مشورہ دیا کہ گندم، خوراک اور چارے کی تقسیم کے لیے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جائے جو انتخابات میں کیا گیا تھا اور امدادی سامان کی تقسیم ووٹر لسٹ کی بنیاد پر ہو اور ہر شناختی کارڈ پر 50 کلو گرام گندم دی جائے۔ایڈیشنل سیشن جج نے بتایا کہ تھر میں لوگوں کا گزر بسر مال مویشیوں پر ہے اس لیے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ متعلقہ محکمہ ان جانوروں کی صحیح اور مقررہ وقت پر ویکیسن کرے۔

انھوں نے تھر میں بیماریوں کی ایک بڑی وجہ وہاں موجود پانی کو قرار دیا ہے اور تجویز پیش کی کہ اگر بڑے پیمانے پر متعلقہ محکمے ریورس اوسموسس پلانٹ لگائیں تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہیرپورٹ کے مطابق ضلعی ہسپتال اور تحصیل کے ہسپتالوں کی بار بار انسپیکشن کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ڈیپلو، چھاچھرو، اسلام کوٹ اور ننگرپارکر تحصیل ہپستال اور ڈسپینسریاں مکمل طور پر فعال نہیں ہیں۔

ان کے مطابق وہاں بچوں اور خواتین کے امراض کے ماہرین کی تعیناتی نہیں ہوسکی اور دور دراز کے علاقوں میں صحت کی کوئی سہولت دستیاب نہیں اور غریب متاثرین تحصیل اور ضلعی ہسپتال تک پہنچ نہیں سکتے۔میاں فیاض ربانی نے سفارش کی کہ ضلع کے دور دراز علاقوں میں صحت کے مسائل کے بارے میں آگاہی کے لیے محکمہ منصوبہ بندی اہم کردار ادا کر سکتا ہے، ماں اور بچے کو بیماریوں سے بچانے کے لیے متعلقہ محکموں کو حفاظتی ٹیکوں کا پروگرام چلانا چاہیے، اس کے ساتھ تمام ڈسپنسریوں اور صحت مراکز کو فعال بنایا جائے اور وہاں ڈاکٹروں، اسٹاف اور ادویات کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔

متعلقہ عنوان :