ملک سے آلودگی کے خاتمے اور ماحول کو صاف رکھنے کیلئے عوامی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے،ماہرین،میڈیا کواس میں اپنا کرداراداکرناچاہیے،حکومت اسلام آباد کی کچی آبادیوں کو صاف پانی فراہم نہیں کر رہی، جنگلات کی کٹائی روکنے کے حوالے سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنی چاہیے، مختلف ممالک کے منفی ماحول کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں، ماحول اور موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر نیشنل پریس کلب اسلام آبادمیں ایک روزہ ورکشاپ سے خطاب

جمعرات 24 اپریل 2014 20:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24اپریل۔2014ء) ماحولیات کے ماہرین نے کہا ہے کہ ملک سے آلودگی کے خاتمے اور ماحول کو صاف رکھنے کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے وگرنہ آنیوالی نسلیں ہمیں معاف نہیں کرینگی جبکہ اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اس بارے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس ایشو کو ترجیحی بنیادوں پرسامنے لانا ہوگا۔

ماحول اور موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر نیشنل پریس کلب اسلام آباد اور ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام نیشنل پریس کلب ،اسلام آبادمیں ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے شفقت کاکا خیل نے کہا کہ تیل و گیس کے استعمال کی وجہ سے آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے،ساڑھے پانچ گنا آبادی میں اضافے کی وجہ سے دیہی علاقوں میں بھی آلودگی بڑھ رہی ہے،حکومت اسلام آباد کی کچی آبادیوں کو صاف پانی فراہم نہیں کر رہی،کراچی کا واحد دریا کا پانی بھی قابل استعمال نہیں رہا،کراچی میں روزانہ18.50ہزار ٹن فضلہ پیدا ہو رہا ہے جس کو ٹھکانے لگانے کے مناسب انتظامات نہیں ہیں،فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے،کھادوں کے بے دریغ استعمال سے دیہی علاقوں کا پانی بھی آلودہ ہو رہا ہے،پاکستان کے وجود میں آنے کے موقع پر صرف4ملیں موجود تھیں جو کہ اب18,300یونٹس تک پہنچ چکی ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت کا دارومدار پانی پر ہے جبکہ دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں اوسطاًکم بارشیں ہوتی ہیں اسی لیئے کسانوں کو گلیشیئرز سے ملنے والے پانی پر گذارا کرناپڑتا ہے۔آلودگی کو کم کرنے اور جنگلات کی کٹائی روکنے کے حوالے سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنی چاہیء جبکہ اس ایشو کے حوالے سے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔

طاہر مرزا نے کہا کہ مختلف ممالک کے منفی ماحول کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں ،حکومت ماحول کو صاف رکھنے اور آلودگی کو ختم کرنے کی طرف توجہ دے۔سعدیہ اشفاق نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی سے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔1983میں انوائر منٹ پروٹیکشن آرڈیننس کا نفاذ ہوا۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں 5ہزار گلیشیئرز اور 8ہزار میٹرز سے بلند متعدد چوٹیاں موجود ہیں،ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے روزانہ کا ایک ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

اس وقت انرجی،خوراک اور پانی کی فراہمی کے ایشو زپر کام کرنے کی ضرورت ہے جبکہ2025میں پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا اس حوالے سے حکومت کو ابھی سے کام کا آغاز کر دینا چاہیئے۔شاہد منہاس نے کہا کہ ہمارے پاس بے شمار قدرتی وسائل موجود ہیں ہمیں ان سے استفادہ کرنا ہوگا،آلودگی کا خاتمہ اور صاف پانی کی فراہمی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

نیشنل پریس کلب کے صدر شہر یار خان نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل پریس کلب مختلف ایشوز پر صحافیوں کو تربیت کے مواقع فراہم کرتا آ رہا ہے،ماحول کے ایشو کو ہمیں ترجیعی بنیادوں پر سامنے لانا ہو گا اور اخبارات و ٹی وی چینلز کو اس بارے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس ایشو کو سامنے لانے پر اپنی توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ انہوں نے مستقبل میں بھی اسی طرح کی ورکشاپ کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیا اور اس ورکشاپ کے انعقاد پر ایس ڈی پی آئی کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

آخر میں ایس ڈی پی آئی کے شکیل رامے نے نیشنل پریس کلب کے صدر شہر یارخان اور دیگر شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایس ڈی پی آئی مستقبل میں بھی نیشنل پریس کلب کیساتھ ملکر اس قسم کی ورکشاپس کا انعقاد کرتا رہے گا۔