مختلف ممالک میں قیام پذیر پناہ گزینوں میں کینسر کے علاج کیلئے بہت زیادہ مطالبات سامنے آتے ہیں ،پورا کیا جانا کٹھن ہے ،ماہرین

پیر 26 مئی 2014 14:53

لندن (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 26مئی 2014ء)ماہرین نے کہا ہے کہ مختلف ممالک میں قیام پذیر پناہ گزینوں میں کینسر کے علاج کے لیے بہت زیادہ مطالبات سامنے آتے ہیں تاہم ان کا پورا کیا جانا کافی کٹھن ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پناہ گزینوں کی صحت کیلئے کام کرنے والوں کے پیش نظر متعدی اور وبائی امراض کے علاوہ غذائیت کی کمی رہا کرتی تھی اور وہ ان شعبوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے تھے تاہم اب اقوام متحدہ کے ہائی کمیشنر برائے پناہ گزین کے مطابق تارکین وطن کو پناہ دینے والے ممالک کا کہنا ہے کہ کینسر ایک اہم مسئلہ ہے۔

انھوں نے یہ بات لانسیٹ آنکولوجی‘ نامی جریدے میں کہی ۔ انھوں نے کہا کہ فنڈنگ کی اختراعی سکیموں اور پناہ گزین کیمپوں میں سکریننگ کی سہولیات سے اس ضمن میں مدد مل سکتی ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر پال سپیگل کی سربراہی میں ایک ٹیم نے یواین ایچ سی آر کی محضوص کیئر کمیٹی (ای سی سی) کے تحت امداد کے لیے دی جانے والی درخواستوں پر غور کیا۔ای سی سی نے 2010 اور 2012 کے درمیان اردن میں مقیم پناہ گزینوں کی جانب سے علاج کیلئے دی جانے والی 1989 درخواستوں کا تجزیہ کیا۔

ان میں سے تقریبا ایک چوتھائی (511) درخواستیں کینسر کے علاج کیلئے تھیں۔ اور ان میں بھی چھاتی اور کولوریکٹل یا قولون کینسر سب سے عام تھے ان میں سے نصف معاملوں کو منظور کیا گیا اور ان کیلئے تعاون دیا گیا۔ انھیں معاملات میں درخواستوں کو مسترد کیا گیا جہاں مرض میں اضافے کی خراب پیش گوئی کی گئی تھی یا پھر علاج زیادہ مہنگا تھا۔کسی فرد واحد کیلئے سب سے زیادہ منظور کی جانے والی رقم 4626 امریکی ڈالر تھی جو کہ 2011 میں منظور کی گئی جبکہ 2012 میں منظور کی جانے والی خطیرترین رقم 3501 امریکی ڈالر تھی۔

ڈاکٹر سپیگل نے کہاکہ مشرق وسطی کے ممالک نے پہلے عراق سے اور پھر شام سے لاکھوں پناہ گزینوں کا اپنے ملکوں میں خیر مقدم کیا۔انھوں نے کہاکہ بین الاقوامی تنظیموں اور مخیر حضرات سے ملنے والی امداد کے باوجود علاج کی سہولیات میں اضافے اور انفرادی لوگوں کو دواوٴں کے لیے امداد دینے کے لیے رقم ناکافی رہی ہے۔ ان اخراجات کا بار مہمان نواز ممالک پر آن پڑا ہے۔

مثال کے طور پر اردن کی وزارت صحت نے 2013 کے پہلے چار مہینوں کے دوران پناہ گزینوں کی طبی امداد کے لیے پانچ کروڑ 30 لاکھ امریکی ڈالر فراہم کرایا۔ڈاکٹر سپیگل نے کہاکہ اب تک انسانی بحران کا تجربہ بنیادی طور پر افریقہ میں سہارا کے ذیلی علاقوں کے ممالک کا تھا جہاں وبائی امراض اور خوراک کی کمی ترجیحات میں شامل تھیں تاہم اب 21 وی صدی میں پناہ گزین آبادی زیادہ دنوں تک رہتی ہے اور متوسط آمدنی والے ممالک اس کی زد میں ہیں جہاں کینسر جیسے پرانے امراض زیادہ ہیں۔