حکومت کی جانب سے بجٹ میں دئیے گئے اعداد وشمار غلط ہیں جو ثابت بھی کئے جائیں گے،سینیٹ میں متحدہ اپوزیشن کا چیلنج ،حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں15سے25فیصد تک اضافہ کرے،صوبوں کے نقطہ کو کم نہ کیا جائے،تعلیم اور صحت صوبائی معاملات میں ان پر وفاق میں زیادہ رقم مختص نہ کی جائے،بجلی پر سیلز ٹیکس لگانے کا حکومت کو کوئی اختیار نہیں،یہ معاملہ صوبوں کا ہے،گیس پر گیس ڈویلپمنٹ سرچارج واپس لیا جائے،غریبوں کے لئے یوٹیلٹی کارڈ تیارکرکے عام مارکیٹ سے30فیصد کم نرخوں پر اشیاء دی جائیں، مشترکہ پریس کانفرنس

جمعہ 6 جون 2014 22:10

حکومت کی جانب سے بجٹ میں دئیے گئے اعداد وشمار غلط ہیں جو ثابت بھی کئے ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6جون۔2014ء) سینیٹ میں متحدہ اپوزیشن نے حکومت کی جانب سے بجٹ میں دئیے گئے اعداد وشمار کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اعداد وشمار غلط ہیں جو ثابت بھی کئے جائیں گے،حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں15سے25فیصد تک اضافہ کرے،صوبوں کے نقطہ کو کم نہ کیا جائے،تعلیم اور صحت صوبائی معاملات میں ان پر وفاق میں زیادہ رقم مختص نہ کی جائے،بجلی پر سیلز ٹیکس لگانے کا حکومت کو کوئی اختیار نہیں،یہ معاملہ صوبوں کا ہے،گیس پر گیس ڈویلپمنٹ سرچارج واپس لیا جائے،غریبوں کے لئے یوٹیلٹی کارڈ تیارکرکے عام مارکیٹ سے30فیصد کم نرخوں پر اشیاء دی جائیں۔

جمعہ کے روز سینیٹ کی متحدہ اپوزیشن نے پریس کانفرنس کی،اس موقع پرسینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ سینیٹ اپوزیشن پیپلزپارٹی،اے این پی،بی این پی عوامی اور مسلم لیگ(ق) شامل ہیں،سب نے مشترکہ بجٹ کیلئے سفارشات تیار کی ہیں،یہ بجٹ کاروباری،سرمایہ کار اور جاگیردار حضرات کا بجٹ ہے اور انہیں مزید رعایت دینے کا بجٹ ہے،موجودہ حکومت نے عالمی سامراج ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدوں پر بنایا ہے ،سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ اکنامک سروے کے اعداد وشمار بجٹ سے میچ نہیں کررہا،تمام معاشی اعشاریے نیچے جارہے یہں،آئی ایم ایف3.5جی ڈی پی گروتھ نہیں دے رہا،اس سال جی ڈی پی گروتھ پچھلے سال سے کم ہے،4.14جی ڈی پی کی شرح درست نہیں،انہوں نے کہا کہ بجٹ اور اعشاریے غلط ہیں،حقیقی اعداد وشمار کیوں نہیں دئیے گئے،عوام کو آگاہ کرنا چاہئے اور وضاحت کرنی چاہئے کہ یہ صورتحال کیوں ہے،میں ثابت بھی کروں گا کہ یہ اعداد وشمار کیوں نہیں دئیے گئے،عوام کو آگاہ کرنا چاہئے اور وضاحت کرنی چاہئے کہ یہ صورتحال کیوں ہے،میں ثابت بھی کروں گا کہ یہ اعداد وشمار کیوں غلط ہیں،حاجی عدیل نے کہا کہ صوبوں کو دئیے جانے والے نفع کی شرح وہی ہونی چاہئے جو پہلے سے طے ہے،اس کے علاوہ ہمارے صوبے کو نیٹ ہائیڈل نفع نہیں مل رہا ہے،یہی مطالبہ پنجاب کا بھی ہے،سینیٹر تاج حیدر نے کہا ہے کہ مرکز صوبوں کے وسائل چھین رہا ہے اور18ویں ترمیم میں صوبوں کو دئیے گئے وسائل نہیں مل رہا،اعداد وشمار میں بھی گڑ بڑھ تھی اس سال بھی ہے،ہم نے تجویز دی ہے کہ جو رقوم وفاقی بجٹ میں رکھی گئی ہیں وہ گارنٹی پر ہو،انہوں نے کہا کہ تعلیم اور صحت صوبائی معاملات ہیں مرکز میں بہت سے وسائل نہیں رکھے جانے جانے چاہئے،یہ وزارتیں مرکز میں نہیں ہونی چاہئے،مرکز ان شعبے مں ے اتنی ہی رقم رکھے جو ضروری ہے،باقی پیسہ ڈویژیبل پول میں دیا جائے،زکوٰة صوبوں کو منتقل ہونے کے باوجود مرکز جمع کر رہا ہے،زکوٰة براہ راست صوبے جمع کریں،انہوں نے کہا کہ بجلی سروس ہے،اس پر سیلز ٹیکس لگایا ہے مرکز کو یہ ٹیکس لگانے کا حق نہیں ہے،اگر ٹیکس لگانا ہے تو صوبے لگائیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ تیل وگیس پر جو آمدنی ہورہی ہے اس میں صوبوں کو کچھ نہیں مل رہا،اس لئے تجویز دی ہے کہ منافع کو صوبے اور مرکز کے درمیان تقسیم کردیا جائے،گیس ڈویلپمنٹ سرجارج200فیصد بڑھا دیا ہے،اس سے صوبوں میں صنعت کو مسائل پیدا ہونگے اس لئے حکومت اس کو واپس لیں،انہوں نے کہا کہ بجٹ میں نرالی منطق دی گئی ہے کہ صوبائی بجٹ کا سرپلس وفاقی بجٹ کا خسارہ ختم کرنے کیلئے استعمال کیا جائے،کیوں صوبے اپنے ترقیاتی بجٹ کو روکیں اور بجٹ سرپلس دکھائیں تاکہ وفاقی بجٹ کا خسارہ ختم کیا جائے،انہوں نے کہا کہ گریڈ ایک سے پندرہ تک کے سرکاری ملازمین کو بنیادی تنخواہ پر25فیصد،گریڈ15سے اوپر کے ملازمین کو بنیادی تنخواہ پر15فیصد اضافہ دیا جائے،غریب خاندانوں کو یوٹیلٹی کارڈ دئیے جائیں اور انہیں اس کارڈ پر اشیاء30فیصد کم ریٹ پر دیا جائے،انہوں نے کہا کہ حکومت قانون سازی کرکے ای او بی آئی کے پنشنرز کی پنشن6000روپے کی جائے،انہوں نے کہا کہ حکومت بجلی پر سبسڈی کو کم کرکے ٹیکس بڑھا رہی ہے،اس سال60فیصد سبسڈی کم کرنے کی بات کی ہے،یعنی قیمتیں بڑھانے کی بات کی ہے،حکومت قیمتوں میں اضافہ نہ کرے،پچھلے سال35فیصد اضافہ ہوا ہے اگر سبسڈی کو از سر نو نہ دیکھا تو قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا،تاج حیدر نے کہا کہ الیکٹرسٹی کے شعبے میں پاور کے نقصانات کو ختم کرنے کیلئے کام کیا جائے،انہوں نے کہا کہ زراعت کا شعبہ الایمنگ ہے،زراعت میں گروتھ میں کمی خطرناک ہے،گروتھ کو بڑھانے کیلئے زراعت کریڈٹ بڑھانا کافی نہیں ہے،حکومت پیداواری لاگت میں کمی لائے،انہوں نے کہا کہ ٹیکس کے شعبے مں ے بڑے انتشار سے حکومت اس انتشار کو ختم کرکے ٹیکس اصلاحات کمیشن بنائے،یہ حکومت ایس آر اوز پر چلتی رہی ہے،حکومت نے ایس او اوز کے ذریعے 237ارب کی رعایت دی ہے،اس میں صوبوں کا57فیصد حصہ ہوتا ہے،حکومت نئے ایس آر اوز کے جو237 ارب کے ہیں،ان کو فوری طور پر ختم کئے جائیں،اس کے علاوہ حکومت340ارب کے کل ایس آر اوز کو ختم کرے،انہوں نے کہا کہ حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری پر20فیصد کارپوریشن ٹیکس ہوگا جبکہ اندرونی سرمایہ کاری پر35فیصد کارپوریٹنگ ٹیکس ہوگا،حکومت کالو گوروں کافرق ختم کرے اور سب کیلئے35فیصد ٹیکس رکھے،انہوں نے کہا کہ جو ادارے زیروں نفع دکھا رہے ہیں ان کا سرکاری آڈٹ کیا جائے،جو ٹیکس ادا نہیں کر رہے ان کو معطل کیا جائے،حکومت کیپیٹل گین ٹیکس کم کرے،انہوں نے کہا کہ موبائل کمپنیاں جو سیلز ٹیکس لے رہی ہیں یہ سروس ہے،یہ پیسہ صوبائی حکومتوں کو دیا جانا چاہئے،انہوں نے کہا کہ حکومت بہت سے ہائی ویز کے منصوبے پی ایس ڈی پی میں شامل کریں،پاک چین اکنامک کوریڈور کا روٹ ایسا ہو کہ چاروں صوبے فائدہ حاصل کرسکے اور ووٹ کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل میں ہو،انہوں نے کہا کہ1800 سی سی سے بڑی گاڑیوں پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے،سینیٹر سعید مندوخیل نے کہا کہ حکومت نے صرف پنجاب کے اعداد کا بجٹ پیش کیا ہے،کچھ چیزیں درست نہ کی گئیں تو ہم بھرپور طریقے سے مخالفت بھی کریں گے اور احتجاج بھی کریں گے،سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ یہ بجٹ غریبوں کو پسنے کا بجٹ ہے،تاج حیدر نے کہا کہ باہر سے آنے والے پیسے کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں ہے کہ یہ پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔