پاکستان میں پائے جانے والے ہیپاٹائٹس کی 90 فیصداقسام قابل علاج ہیں‘ڈاکٹر اسرارالحق طور

جمعرات 26 جون 2014 19:07

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26جون۔2014ء) پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ و لاہور جنرل ہسپتال کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف میڈیسن ڈاکٹر اسرارالحق طور نے کہا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی قابل علاج ہیں بشرطیکہ بروقت علاج ضروری ہے ، ہیپاٹائٹس کے مریض علاج سے صحت مند ہوجاتے ہیں لیکن صحت مند ہونے کے بعد بھی اس وائرس کے اثرات دوبارہ آسکتے ہیں، یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔

ابتدائی اسٹیج پر ٹیسٹ کرالیے جائیں تو 90 فیصد مریض ادویات سے صحت یاب ہوسکتے ہیں، لوگوں میں اس بیماری کے بارے میں بیداری کی ضرورت ہے۔گزشتہ روز ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسرارالحق طور نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس دنیابھر کی نسبت زیادہ پھیل رہا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں پائے جانے والے ہیپاٹائٹس کی 90 فیصداقسام قابل علاج ہیں ۔

ہیپاٹائٹس کے مریض علاج سے صحت مند ہوجاتے ہیں لیکن صحت مند ہونے کے بعد بھی اس وائرس کے اثرات دوبارہ آسکتے ہیں۔ لوگوں میں اس بیماری کی آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ علماء کرام، ذرائع ابلاغ اور سماجی تنظیموں کے عہدیداران ہیپاٹائٹس کی آگاہی کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔ امراضِ جگر کی بڑھتی ہوئی شرح سے جگرکے ناکارہ ہوجانے میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے، جس کا واحد علاج جگر کی پیوند کاری ہے۔

پاکستان میں جگر کی بیماریاں اعدادوشمار کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر آتی ہیں۔ احتیاطی تدابیر سے اسے آسانی سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے پھیلنے کی وجوہات آلودہ سرنج کا استعمال، دانتوں کا علاج، آلودہ خون کا لگوانا، اورعمل جراحی کے دوران آلودہ اوزاروں کا استعمال ہے۔ دنیا بھر میں نصف فیصد متاثرہ لوگوں میں ہیپاٹائٹس بی کی کوئی علامت نہیں ہوتی۔دنیا بھر میں نصف فیصد متاثرہ لوگوں میں ہیپاٹائٹس بی کی کوئی علامت نہیں ہوتی۔ اس وائرس کی علامت 30سے 180دنوں کے اندراثرانداز ہوتی ہے جو کہ فلو سے ملتی جلتی ہوتی ہے ۔ زیادہ تر لوگوں میں فلو اور ایچ بی وی انفیکشن کے ہونے کا اندازہ نہیں ہوتا۔

متعلقہ عنوان :