پاکستان اور سپین کو بین المذاہب کے درمیان ہم آہنگی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ، صدر مشرف،ہم نے القاعدہ اور طالبان کو نہیں بھیجا بلکہ وہ افغانستان سے ہمارے ملک میں داخل ہوئے،قرطبہ یونیورسٹی میں خطاب

جمعرات 26 اپریل 2007 20:26

قرطبہ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26اپریل۔2007ء) صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ہم آہنگی اور ترقی کو فروغ دینے کیلئے تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سپین کو بین المذاہب کے درمیان ہم آہنگی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ، جمعرات کو سپین میں اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی پیدا کرنے اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کو فروغ دینے کے موضوع پر قرطبہ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، انہوں نے کہا کہ سپین کی جانب سے تہذیبوں کے اتحاد کی تجویز اور میرے روشن خیال اعتدال پسندی کے نظریے کے مقاصد ہیں کہ فرق کو دور کیا جائے اور ہم آہنگی پیدا کی جائے ، صدر پرویز مشرف نے اپنے روشن خیال اعتدال پسندی کی حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں اسلامی دنیا پر زور دیا گیا ہے کہ وہ انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرے اور سماجی اور اقتصادی ترقی کیلئے کوششیں کرے ، انہوں نے مشرق وسطی اور افغانستان کی صورتحال کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر افغانستان کی صورتحال کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، صدر مشرف نے کہا کہ القاعدہ اور طالبان پاکستان کی پیداوار نہیں ہیں ۔

(جاری ہے)

ہم نے انہیں افغانستان نہیں بھیجا بلکہ بدقسمتی سے وہ افغانستان سے ہمارے ملک میں داخل ہوئے دہشت گردی کے بنیادی اسباب کا پتہ چلانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدر پرویز مشرف نے کہا کہ فلسطین عراق اور لبنان سمیت تمام تنازعات اور القاعدہ کے مسئلے کے بنیادی اسباب کا جائزہ لیا جانا چاہیے ، انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فلسطین کے تنازعہ کا حل تلاش کیا جائے جس کے باعث اسلامی دنیا میں غیرت اور غم وغصہ پیدا ہوا ہے صدر مشرف نے دہشت گردی کی روک تھام کیلئے غربت اور جہالت کے مسئلے کے حل کی ضرورت پر بھی زور دیا ، انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں تیزی آرہی ہے اور تصفیہ طلب مسائل کے حل کے سلسلے میں مناسب پیش رفت ہوئی ہے ۔

ایران امریکہ کشیدگی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خلاف ہے ، تاہم انہوں نے کہا کہ ہم ایٹمی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے بارے میں کسی بھی ملک کے حق کو تسلیم کرتے ہیں اور ہم خطے میں طاقت کے استعمال کے خلاف ہیں ۔