قدرتی اجزاء کی مدد سے موثر اینٹی بائیو ٹِکس کی ایجاد،سمندر کی تہوں اور خشک ترین صحراوٴں میں موجود انمول کیمیائی خزانوں کی تسخیر کا اہم کام شروع کر دیا گیا

منگل 19 اگست 2014 17:17

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19اگست۔2014ء) طبی محققین نے نئی اینٹی بائیوٹِکس کی ایجاد کے لیے سمندر کی تہوں اور خشک ترین صحراوٴں میں موجود انمول کیمیائی خزانوں کی تسخیر کا اہم کام شروع کر دیا ہے۔دنیا بھر میں جیسے جیسے نت نئے انفیکشنس اور وبائی امراض کا پھیلاوٴ بڑھتا جا رہا ہے ویسے ویسے طبی ماہرین اور محققین نئی اینٹی بائیوٹِکس کی ایجاد پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

اس ضمن میں قدرتی اجزاء کے استعمال سے اینٹی بائیوٹِکس تیار کرنے کے عمل پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔مشرقی برطانوی شہر نارِچ (Norwich) میں قائم جان اِنس سینٹر کے محققین قدرتی ذخائر میں چْھپے ایسے نایاب کیمیائی اجزاء کی تلاش کر رہے ہیں جن سے تیار کردہ اینٹی بائیوٹِکس گوناگوں بیماریوں کا سبب بننے والے جراثیموں کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہوں اور اس طرح بہت سی اْن بیماریوں کا موثر علاج سامنے آ سکے جو انسانوں کی ہلاکتوں کا سبب بن رہی ہیں۔

(جاری ہے)

طبی محققین نے نئی اینٹی بائیوٹِکس کی ایجاد کے لیے سمندر کی تہوں اور خشک ترین صحراوٴں میں موجود انمول کیمیائی خزانوں کی تسخیر کا اہم کام شروع کر دیا ہے۔ جان اِنس سینٹر کے مولیکیولر بائیولوجی کے پروفیسر میروِن بِب دنیا کے مختلف ماہرین جینیات اور کیمیا دانوں کے تعاون اور اشتراک عمل سے نئی اینٹی بائیوٹِکس کی ایجاد کے لیے قدرتی اجزاء کے استعمال کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں،" ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماحولیاتی سوچ اپنائیں جو روایتی طور پر مروج نہیں ہے۔نئی اینٹی بائیوٹِک ادویات کی ایجاد دور حاضر کے لیے ناگزیر ہے اور ایک بڑا چیلنج بن چْکی ہے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر میروِن بِب مزید کہتے ہیں،" قدرتی کیمیائی اجزا دوا سازی کے بہت حق میں نہیں رہے ہیں تاہم اب وقت آ گیا ہے اس بارے میں دوبارہ غور و خوض کیا جائے۔

گوناگوں بیماریوں کے خلاف جنگ کرنے والے افریقی ممالک اس ضمن میں ایک جھلک فراہم کرتے ہیں، اْس بھیانک منظر کی جو مستقبل میں ایسی ادویات کے غیر موثر ہونے سے پیدا ہو جائے گا جو آپریشن کے بعد انسانی جسم کو انفیکشن اور بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ جنوبی افریقہ میں ٹی بی یا تپ دق کے مریضوں کو ہسپتالوں سے گھر بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ دم توڑ دیتے ہیں کیونکہ اْن کو لاحق مرض کے خلاف جو اینٹی بائیوٹِکس اب تک استعمال کی جاتی رہی ہیں وہ اب بے اثر ہو چْکی ہیں اور ان مریضوں میں ان ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہو چْکی ہے۔

ایک تازہ ترین مثال مغربی افریقہ میں پھیلنے والا مہلک وائرس ایبولا ہے جس کا اب تک کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔ ایبولا اگرچہ بیکٹیریا نہیں بلکہ وائرس سے پھیل رہا ہے تاہم ان دونوں ہی کے خلاف موثر علاج اْس وقت ممکن ہوتا ہے جب ان کے خلاف استعمال کی جانے والی ادویات کارآمد ثابت ہوں۔برطانیہ کی یونیورسٹی آف آبرڈین سے منسلک اورگینک کیمیسٹری کے ایک پروفیسر مارسل جیسپر" فارما سی" نامی ایک انوکھے تحقیقی پروجیکٹ کے سربراہ ہیں۔

یورپی یونین کی طرف سے ساڑھے نو ملین یورو کی مالی معاونت سے شروع ہونے والے اس پروجیکٹ میں بین الاقوامی ریسرچرز کی ایک ٹیم بحراوقیانوس کی گہرائیوں اور ناروے کے آرکٹک کی برفانی تہوں میں چھْپے قدرتی ذخائر تلاش کرنے کا اہم کام انجام دے رہی ہے۔ محققین سمندر کی تہوں میں سے کیچڑ یا گارا نکال کر لانا چاہتے ہیں جنہیں ادویات سازی میں استعمال کیا جائے گا۔

اس عمل میں بحراوقیانوس کے گہرے سمندر کی کھائیوں اور آرکٹک میں خاص طورپر ناروے کے ارد گرد کے علاقے سے تلچھٹ نکالنے کا کام بھی شامل ہو گا۔برطانوی شہرناِرچ میں قائم جان اِنس سینٹر کے طبی محققین پتے چاٹنے والی چیونٹیوں اور چھوٹے چھڑی نما کیڑوں اور چمکدار سرخ قلمی مادے شنگرف کے کیٹرپلرز یا سنڈیوں کی مدد سے بھی اینٹی بائیوٹیکس تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔