شمالی وزیرستان کے راستے بند، ادویات ، خوراک کی کمی ، لوگ مشکلات کا شکار ،ہر ہفتے یا 10دنوں کے بعد چند ٹرک خوراک پہنچا جاتا ہے جو چند گھنٹوں میں ختم ہو جاتی ہیں، قبائلی پھوٹ پڑے

بدھ 3 ستمبر 2014 23:32

شمالی وزیرستان کے راستے بند، ادویات ، خوراک کی کمی ، لوگ مشکلات کا شکار ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔3ستمبر۔2014ء) پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کے نتیجے میں چند تحصیلوں میں بدستور آمدورفت کے راستے بند ہے۔دوسلی تحصیل سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی ملک میر کلام خان نے بی بی سی کو بتایا کہ شمالی وزیرستان کے تحصیل گڑیوم، دوسلی، رزمک، شواء اور سپین وام میں آپریشن نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے یہاں اکثریت آبادی بدستور مقیم ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان تحصیلوں کے تمام راستے آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے گذشتہ دو ماہ سے بند ہیں جس کی وجہ سے گاڑیوں کی آمدو رفت بھی معطل ہے جبکہ لوگ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جا سکتے۔انھوں نے بتایا کہ راستوں کی بندش کے باعث بیشتر علاقوں میں لوگوں کو خوراک اور ادوایات کی شدت قلت کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

میرکلام خان کے مطابق ’حکومت نے ہر تحصیل میں مخصوص افراد کو اجازت نامے جاری کیے ہیں جس کے تحت صرف وہی افراد ہی باہر سے کھانے پینے کی اور دیگر چیزیں لا سکتے ہیں۔

ہر ہفتے یا 10دنوں کے بعد علاقے میں چند ٹرک راشن، اور دیگر خوراک پہنچا جاتا ہے لیکن یہ اشیاء پہنچتے ہی چند گھنٹوں کے اندر ختم ہو جاتی ہیں۔قبائلی ملک نے مزید بتایا کہ علاقے میں اکثر اوقات کرفیو بھی نافذ رہتا ہے جس کی وجہ سے مقامی باشندے آزادانہ نقل و حمل نہیں کر سکتے اور نہ دور دراز علاقوں میں جاکر خرید و فروخت کر سکتے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ دوسلی تحصیل میں پچھلے دو ماہ سے بجلی کی ترسیل بھی بند ہے جس کے باعث علاقے میں پانی کی قلت بھی پیدا ہوگئی ہے جبکہ لوگوں کو دور دراز کے پہاڑی علاقوں سے پینے کا پانی خچروں پر لانا پڑتا ہے۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقے شکتوئی میں بھی راستوں کی بندش کے باعث اردگرد واقع تمام علاقوں کے افراد اپنے مکانات میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔تحصیل گڑیوم کے ایک قبائلی رہنما بھٹو خان نے بتایا کہ گذشتہ دو ماہ سے علاقے میں ایسی صورتحال ہے کہ لوگ کھانے پینے کی اشیاء کے لیے ترس رہے ہیں۔’علاقے میں کم مقدار میں خوراک اور ادویات پہنچ رہی ہیں جبکہ آبادی زیادہ ہے جس کی وجہ سے قلت پیدا ہو رہی ہے۔

زیادہ تر آبادی دور دراز پہاڑی علاقوں میں مقیم ہیں اور جب وہ راشن لینے آتے ہیں تو اس سے پہلے ہی ساری چیزیں ختم ہو چکی ہوتی ہے جس سے لوگ مایوسی کا شکار بھی ہو رہے ہیں۔علاقے کے ایک اور باشندے محسن خان نے کہا کہ علاقے کے تمام ہسپتال غیر اعلانیہ طور پر بند ہیں جبکہ ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف بھی موجود نہیں۔انھوں نے کہا کہ دوائیاں ہسپتالوں میں دستیاب ہیں اور نہ دکانوں میں جس کی وجہ سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

متعلقہ عنوان :