گنے کی فی ایکٹر پیداوار بڑھانے کیلئے شوگر کین بریڈنگ سٹیشن کے قیام کی ضرورت ہے ،سکندر حیات بوسن ،

گنے کی قیمتوں کو ریکوری کے ساتھ منسلک کی جائے ، ملک میں سیلاب کا پانی ذخیرہ کرکے ڈیمز بناکر توانائی کی کمی کو پوراکیاجاسکتاہے، وفاقی وزیر کا تقریب سے خطاب ،میڈیا سے گفتگو

پیر 8 ستمبر 2014 22:47

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔8 ستمبر۔2014ء) وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ سکندر حیات بوسن نے سیلاب سے بچنے کیلئے ملک میں نیے ڈیمز کی تعمیر کی ضرورت پر زور دیا ہے جس سے ایک طرف تو ملک کو بڑے نقصان سے بچایا جا سکتا ہے جبکہ دوسری طرف اس پانی کو توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ فصلوں کے لئے استعمال کیاجاسکتاہے تاہم ہمارے کچھ صوبوں کو ڈیمز کی تعمیر پر تحفظات ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی سطح پر ڈیمز کی تعمیر کیلئے قومی سوچ کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔

وہ پیرکے روز مقامی ہوٹل میں 48ویں سالانہ کنونشن آف پاکستان سوسائٹی آف شوگر ٹیکنالوجسٹس کی افتتاحی تقریب سے خطاب اورمیڈیا سے گفتگو کررہے تھے اس موقع پر پاکستان سوسائٹی آف شوگر ٹیکنالوجسٹس کے صدر انجینئر مراد اے بھٹی بھی موجود تھے ۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر نے کہاکہ سیلاب ختم ہونے کے بعد فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگایاجاسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ حالیہ سیلاب سے گنے کی فصل کم نقصان پہنچاہے اگر سیلاب کارخ جنوبی پنجاب کی طرف ہوگیاتو کپاس کی فصل کو شدید نقصان پہنچ سکتاہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں پانی اور بجلی کی کمی کسان کے لئے نقصان دہ ہے، ملک میں سیلاب کا پانی ذخیرہ کرکے ڈیمز بناکر توانائی کی کمی کو پوراکیاجاسکتاہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہی پانی فصلوں کے لئے استعمال کیاجاسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ ڈیم نہ ہونے کی وجہ سیلاب کا پانی سمندر کی نظر ہوجاتاہے ۔انہوں نے کہاکہ ہماری شوگر انڈسٹری ایک روشن تاریخ کی حامل ہے۔

1947ء میں ملک میں شوگر ملوں کی تعداد 2تھی جو کہ اب 84ہوگئی ہے اور ملک میں 99.08فیصد چینی گنے کی فصل کی پیداکی جاتی ہے ۔انہوں نے کہ وزرات فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ گنے کی فی ایکٹر پیداوار بڑھانے کیلئے اقدامات کررہی ہے اور گذشتہ عشروں کے دوران مثبت سمت کئی ٹھوس اقدامات کئے گئے ہیں جس کی بدولت پاکستان میں گنے سے اوسط 10فیصد تک جبکہ اوسط پیداوار ٹن57ٹن فی ہیکٹر تک جاپہنچی ہے۔

وفاقی وزیر نے گنے کی تحقیق کے اداروں کے سائنسدانوں اور شوگر انڈسٹری کے ورکرزکو اس کاوش پرمبارک باد پیش کی اور اس بات پر زور دیاکہ سائنسدانوں کو بین الااقوامی اہداف کے حصول کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہیئں۔انہوں نے کہاکہ ہر سال 200ارب روپے سے زائد کی گنے کی فصل پیداہوتی شوگر ملوں کو سپلائی کی جاتی ہے۔ملک میں گنے کی بمپر فصل ہونے کی وجہ سے پاکستان میں چینی کی پیداوار سرپلس ہوچکی ہے اور ہمارا ملک چینی برآمد کرنے والا ملک بن چکاہے۔

وفاقی وزیر نے کہاکہ گنے کے کاشتکاروں اور شوگرملوں کے درمیان روابط کا فقدان ہے جبکہ کسان ادائیگیوں میں تاخیر اور گنے کی کٹوتی کی وجہ سے مسائل کا شکارہوتے ہیں ایسی صورتحال میں مڈل مین دونوں سٹیک ہولڈرزسے فائدہ اٹھاتاہے جس سے نہ صرف شوگر انڈسٹر ی کو نقصان پہنچتاہے بلکہ پوری معیشت متاثر ہوتاہے تاہم شوگرانڈسٹری سے مڈل مین کے کردار کا خاتمہ ضروری ہے۔

انہوں نے اس بات پربھی زور دیاکہ پاکستان سوسائٹی آف شوگر ٹیکنالوجسٹس اور شوگر انڈسٹری کو اکٹھے بیٹھ کر اس بات کا حل نکالنا چاہیے کہ گنے کی قیمتوں کو ریکوری کے ساتھ منسلک کی جائے یا اس سلسلہ میں دیگر آپشن استعمال کئے جائیں ۔گنے کی قیمتیں مقرر کئے جانے کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہاکہ وفاقی حکومت کی طرف سے گنے کی قیمتیں مقررکرنے کا اختیار صوبائی حکومت کو دے دیاگیاہے۔

انہوں نے کہاکہ گنے کی فی ایکٹر پیداوار بڑھانے کیلئے ماضی میں شوگر کین بریڈنگ سٹیشن کے قیام کی ضرورت پر زور دیاگیاہے اور ہمارا موقف اب بھی وہی ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان اس وقت انحصار بیج کی مختلف اقسام کی درآمدپر ہے اگر ہمارے پاس اپنے بریڈنگ سٹیشن ہوں تووہاں سے گنے کی اقسام حاصل کرسکتے ہیں جو کہ ہماری فی ایکٹر پیداواربڑھانے میں مدد گارثابت ہوسکتی ہے۔

متعلقہ عنوان :