ڈینگی بخار کے خلاف ویکسین کی کامیابی

منگل 9 ستمبر 2014 14:15

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔9 ستمبر۔2014ء) ڈینگی بخار کے خلاف دوا ساز ادارے سانوفی پاسٹیئر کے محققین نے ایک ویکسین تیار کی ہے۔ آج کل اسے اس وائرس کے شکار بچوں پر آزمایا جا رہا ہے۔جرمن ٹی وی کے مطابق ڈینگی بخار سے بچاوٴ کے لیے تیار کی جانے والی ویکسین پر مختلف مراحل میں تجربات کیے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کیے جانے والے تازہ کلینکل ٹرائل کے نتائج مثبت آئے ہیں تاہم اس کے باوجود ماہرین تحفظات کا شکار ہیں۔

ان کا موقف ہے کہ ابھی تک وثوق سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ویکسین ڈینگی بخار کے خلاف کس حد تک موثر ہے۔ سانوفی پاسٹیئر کے مطابق یہ تجربات تین مراحل پر مشتمل ہیں اور اس دوران مختلف کلینکل ٹرائل کرائے جائیں گے۔ اس سلسلے میں پہلے مرحلے کے دوسرے کلینکل ٹرائل کے نتائج کو عام کرتے ہوئے بتایا کہ یہ انجیکشن 60.8 فیصد موثر ثابت ہوئی ہیں اور اس طرح اصل ہدف حاصل کر لیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

۔ اس ادارے نے اپنی تحقیق کے نتائج گزشتہ ہفتے لاطینی امریکا میں پیش کیے۔ اس سلسلے میں کیے جانے والے پہلے کلینکل ٹرائل کے نتائج رواں سال جولائی میں ایشیا میں جاری کیے گئے تھے۔ اس ویکسین کوCYD-TDV کا نام دیا گیا ہے۔ اس ویکسین کو ڈینگی وائرس کے شکار دو سے چودہ برس کے بچوں پر آزمایا گیا اور اس کے 56,5 فیصد نتائج مثبت رہے۔ان کامیابیوں کے باوجود کچھ ماہرین ان نتائج کے حوالے سے تحفظات بھی رکھتے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ جب تک کلینکل ٹرائلز مکمل نہیں ہو جاتے ویکسین کی کامیابی کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ تحقیق کے لیے کولمبیا، برازیل، ہنڈوراس اور پورٹو ریکو میں نو اور سولہ برس کی درمیانی عمر کے بیس ہزار بچوں پر یہ ویکسین آزمائی گئی۔ ماہرین کے بقول اب ایک مرحلہ باقی رہ گیا ہے اور جس پر سب سے زیادہ اخراجات آئیں گے۔ مزید یہ کہ اگر ماہرین بقیہ کلینکل ٹرائلز سے بھی مطمئن ہوئے تو اس کے بعد ہی اس دوا کو رجسٹر کرایا جا سکے گا اور پھر یہ مارکیٹ میں دستیاب ہو سکے گی۔

اس دوا کا 60.8 فیصد موثر ہونے کا مطلب ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں نصف تک کی کمی ہے۔ دوا ساز ادارے سانوفی کے مطابق اس ویکسین کے استعمال سے شدید بیمار افراد کی تعداد میں بھی بڑی حد تک کمی واقع ہو جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً پندرہ لاکھ افراد ڈینگی کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔

صحیح طبی وسائل مہیا نہ ہونے کی وجہ سے کئی سو افراد موت کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ اس انجیکشن کی قیمت کتنی ہو گی۔ تاہم یہ دوا ساز ادارہ دو دہائیوں پر مشتمل اپنی اس تحقیق پر اب تک 1.3ارب یورو خرچ کر چکا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا کہ سانوفی کا اگلے برس کے وسط تک اس ویکسین کو رجسٹر کرانے کا منصوبہ ہے تاکہ 2015ء کی دوسری ششماہی سے یہ مارکیٹ میں دستیاب ہو سکے۔ اس سلسلے میں کمپنی نے اپنا پیداوری یونٹ لگانے کے لیے جنوبی فرانس مں جگہ بھی خرید لی ہے۔

متعلقہ عنوان :