ایبولاوائرس کا شکارامریکی شہری کو باہر جانے کی اجازت،حکام غلطی پرناداں

ہفتہ 4 اکتوبر 2014 14:00

ٹیکساس(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔4 اکتوبر۔2014ء)ابیولاوائرس میں مبتلا ہونے کے باوجودہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں ایک شخص تھومس ایرک ڈنکن کو ایئر پورٹ پر اسکریننگ کے بعد باہر جانے کی اجازت دے دی گئی،میڈیارپورٹس کے مطابق ڈیلاس شہر میں حکام نے ایبولا کے خطرے کا احساس کرتے ہوئے کئی افراد کی طبی چیکنگ کا عمل مکمل کر لیا ہے۔ اب پچاس افراد پر مزید کلینکل ٹیسٹ کیے جائیں گے۔

طبی حکام کے مطابق یہ پچاس وہ افراد ہیں جن کا ایبولا وائرس کے حامل مریض تھوماس ایرک ڈنکن کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطہ ہوا تھا۔ امریکی حکام کو ایبولا وائرس کے حامل مریض ڈنکن کا اسکریننگ کے بعد گھر بھیج دینے پر خاصی عوامی برہمی کا سامنا ہے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انتھونی فوسی کا کہنا ہے کہ ڈیلاس میں کچھ غلط ضرور ہوا ہے لیکن بہت کچھ صیحیح سمت پر جاری ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر فوسی نے واضح طور پر کہا کہ ڈیلاس کے نواحی علاقے میں ایبولا کی وبا کا کوئی نشان موجود نہیں ہے۔ ڈیلاس کے طبی حکام نے ایبولا وائرس کے حامل مریض کے شمال مشرقی علاقے میں واقع اپارٹمنٹ کی کلینیکل صفائی کا عمل مکمل کر لیا ہے۔ اپارٹمنٹ کو طاقتور جراثیم کْش ادویات سے صاف کیا گیا ہے۔ جن چار افراد کے ساتھ ڈنکن نے ابتدا میں رابطے کیے تھے، اْن کو بھی حکام نے کوارنٹائن کر دیا ہے۔

ڈیلاس کے فائر مارشل رابرٹ ڈی لوس سنٹوس کا کہنا ہے کہ ڈنکن کے اپارٹمنٹ کے ارد گرد مکانوں کو بھی طاقتور جراثیم کْش اسپرے سے پاک کیا جائے گا۔ ٹیکساس ریاست کے ہیلتھ کمشنر ڈاکٹر ڈیوڈ لیکی کا کہنا ہے کہ ابتدا میں ایک سو افراد کو پابند کیا گیا تھا لیکن یہ تعداد اب پچاس تک محدود کر دی گئی ہے۔ ڈاکٹر لیکی کے مطابق پچاس افراد کی نگرانی شروع کر دی گئی ہے۔

حکام کے مطابق اِن میں ایبولا وائرس کی موجودگی کا رسک بہت کم ہے، تاہم ان میں سے دس افراد کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ امریکا کے جن شہروں میں مغربی افریقہ کے تارکینِ وطن آباد ہیں، وہاں حکام تناوٴ اور بیچینی کو کم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس کے نواح میں جہاں ایک ایبولا مرض میں مبتلا مریض مختصر وقت کے لیے ٹھہرا تھا، وہاں کے ایک اسکول کے باہر بڑا پوسٹر نصب ہے کہ اول ترجیح بچے ہیں اور اسکول ایبولا سے محفوظ ہے۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا بند کر دیا ہے۔ بچوں کے گھروں میں انگریزی، عربی، نیپالی، برمی اور ویت نامی زبانوں میں اسکولوں کے محفوظ ہونے کے پیغامات روانہ کیے گئے ہیں۔ کئی اسکولوں میں حاضری بھی دس فیصد کم رپورٹ کی گئی ہے۔