دماغ ذائقے کو کیسے پہچانتا ہے کا راز افشا: دماغ میں ذائقے کے پانچ درجوں، نمکین، تلخ، ترش، شیریں اور خوشگوار ذائقہ کو پہچاننے والے مخصوص نیورون کا پتہ چلا لیا ہے،امریکی سائنسدانوں کا دعوی ، اس سے برسوں سے چلی آنے والی بحث ختم ہو جائے گی کہ آخر دماغ ذائقے کو کیسے پہچانتا ہے، نئی تحقیق سے بڑھاپے میں ذائقے کو لوٹایا جا سکتا ہے، سائنسدان

اتوار 9 نومبر 2014 16:59

دماغ ذائقے کو کیسے پہچانتا ہے کا راز افشا: دماغ میں ذائقے کے پانچ درجوں، ..

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔9نومبر۔2014ء)امریکی سائنسدانوں نے کہا ہے کہ انھوں نے دماغ میں ذائقے کے پانچ درجوں، نمکین، تلخ، ترش، شیریں اور خوشگوار ذائقہ کو پہچاننے والے مخصوص نیورون کا پتہ چلا لیا ہے۔سائنس کے معروف جریدے ’نیچر‘ میں یہ تحقیق شائع ہوئی ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سے برسوں سے چلی آنے والی بحث ختم ہو جائے گی کہ آخر دماغ ذائقے کو کیسے پہچانتا ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی کی ٹیم نے زبان پر عیلحدہ علیحدہ ذائقوں کی پہچان کرنے والے سنسروں کو دکھایا اور پھر دماغ میں بھی اسی طرح کے سنسروں کی نشاندہی کی ہے۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس تحقیق سے وہ بوڑھوں میں ذائقے کی پہچان کھو جانے کو واپس لا سکیں گے۔’یہ بس ایک فرضی بات ہے کہ زبان کی نوک پر ہی میٹھا ذائقہ معلوم ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

‘سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زبان پر ذائقے کی پہچان کرنے والی تقریباً 8000 Taste Budsہیں جو ہر طرح کے ذائقے کی پہچان کے قابل ہیں۔

لیکن زبان پر موجود ذائقے کو پہچاننے والے Taste Buds میں موجود مخوص خلیے پانچ نمکین، تلخ، ترش، شیریں اور یومامی ذائقوں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔جب انھیں کسی ذائقے کا پتہ چلتا ہے تو وہ دماغ کو سگنل بھیجتے ہیں تاہم دماغ ان کو کس طرح لیتا ہے اس پر ابھی بحث کی گنجائش ہے۔کولمبیا یونیورسٹی کی ٹیم نے چوہوں پر یہ تجربہ کیا کہ جب وہ کسی ذائقے سے ہم آہنگ ہوں تو جو نیورون اس سے حرکت میں آتے ہیں وہ روشن ہو جائیں۔

پھر انھوں نے دماغ کے اندر اپنے انڈوسکوپ کے ذریعے ان کو دیکھنے کی کوشش کی۔چوہے کو پانچ ذائقے والی چیزیں کھلائی گئیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی کہ ان سے چوہے کے دماغ کا کون سا حصہ روشن ہوتا ہے یا حرکت میں آتا ہے۔تحقیقی ٹیم کے پروفیسر چارلس زوکر نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ خلیے مختلف ذائقوں سے خوبصورتی کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور آپ ذائقے کے مطابق دماغ میں اس کی نمائندگی کرنے والے حصے کو پاتے ہیں۔

پروفیسر زوکر نے کہا: ’بڑھاپے میں لوگوں کھانے سے لطف اندوز نہیں ہو پاتے اور آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ یہ کس قدر صدمے کی بات ہے۔’ہمارا خیال ہے کہ یہ زبان پر موجود ذائقے کی پہچان کرنے والی کلیوں کی وجہ سے ہے۔ ہر پندرہ دن میں زبان پر ذائقے کے نئے خلیے آ جاتے ہیں لیکن یہ سلسلہ بڑھاپے میں کمزور ہو جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس نئی تحقیق سے اس مسئلے سے نجات حاصل ہو سکتی ہے اور ذائقے کو بڑھایا جا سکے گا