کیا ڈنمارک نے بچوں کے موٹاپے کا حل ڈھونڈ لیا ہے؟

پیر 10 نومبر 2014 12:55

کیا ڈنمارک نے بچوں کے موٹاپے کا حل ڈھونڈ لیا ہے؟

کوپن ہیگن (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 10نومبر 2014ء) بچوں کا موٹاپا ایک عالمی وبا بن چکا ہے، لیکن اس کا علاج کرنا آسان نہیں ہے۔اب ڈنمارک نے ایک منصوبہ بنایا ہے جس کے ذریعے بچے اپنا وزن کم کر سکیں گے۔ اس نئی سکیم میں بچوں اور ان کے اہلخانہ کو اپنی طرز زندگی میں تبدیلیاں لانے کا کہا جاتا ہے۔ایک ڈینش بچوں کے امراض کے ماہر کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ بچوں کے موٹاپے کو روکنے میں کافی کامیاب رہا ہے۔

ہولبیک کے قصبے میں اس سکیم نے 1900 مریضوں کا علاج کیا ہے اور ان میں سے 70 فیصد لوگوں کو وزن کم کرنے میں مدد ملی۔بیس مختلف چیزوں کو اپنی زندگی میں تبدیل کرنے سے وزن کو کم کیا جا سکتا ہے۔امریکہ کے سینٹر فار ڈزیز کنٹرول کے مطابق، ہر تین بچوں میں سے ایک زیادہ وزن کا ہوتا ہے اور گزشتہ تیس سالوں میں بچوں میں موٹاپا چار گنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔

(جاری ہے)

اس سکیم کے بانی ڈاکٹر جینز کرسچیئن ہولم دوسرے ممالک سے بھی درخواست کر رہے ہیں کہ وہ بھی ان کے تجربے سے سیکھیں اور اس عالمی صحت کے چیلنج کا سامنا کریں۔انھوں نے کہا کہ: ’عام طور پر موٹے بچوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یہ اکثر تنہا ہوتے ہیں اور اپنے ہم عمروں کے ساتھ گھل ملتے نہیں ہیں۔ ان میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے اور اس سکیم سے انھیں اپنا وزن کم کرنے کی ایک نئی امید ملی ہے۔

پروگرام کے آغاز میں بچوں کو چوبیس گھنٹوں کے لیے ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے جہاں ان کا معائنہ کیا جاتا ہے اور ان کے جسم کی چربی کی پیمائش کی جاتی ہے۔میں بہت اداس رہتا تھا کیونکہ مجھے بہت تنگ کیا جاتا تھا۔ لیکن اب میرا وزن کم ہو گیا ہے۔ میں زیادہ خوش رہتا ہوں اور میرے میں توانائی بھی ہے۔‘ڈاکٹر ہولم نے دس برس کے جیکب کرسچیئنسن کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ’ہم لوگ یہ مذاق سے نہیں کر رہے۔

یہ بہت مشکل ہے۔جیکب کا وزن 72 کلو گرام تھا، جو ان کے جسم اور عمر کو مد نظر رکھتے ہوئے بیس کلو گرام زیادہ تھا۔ اسے سکول میں تنگ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ڈیپریشن کا شکار ہو گیا اور وہ خود کو تسلی دینے کے لیے میٹھا کھاتا تھا۔جیکب نے ڈاکٹر ہولم کو بتایا کہ وہ ہر روز سکول سائیکل پر جاتے ہیں جس کا فاصلہ ان کے گھر سے تین کلومیٹر دور ہے۔

لیکن صرف ورزش سے اس ’دائمی بیماری‘ کا علاج نہیں ہو سکتا۔جیکب نے کہا کہ: ’مجھے پتا ہے کہ یہ بہت مشکل ہوگا لیکن میں جتنا لڑ سکتا ہوں میں لڑوں گا۔ میں یقیناً میٹھا کھانے کو بہی یاد کروں گا۔ٹیسٹس کی بیچ میں جیکب دوپہر کے کھانے میں پوست کے بغیر مرغی کی ایک بوٹی، کچی گاجریں، لال مرچیں اور سلاد کھاتے ہیں۔اس پروگرام کے مطابق مریض کو اپنی طرز زندگی میں تبدیلیاں لانی پڑیں گی جو چربی کو کم کرنے میں ان کے جسم کی قدرتی مزاحمت کو پھر شکست دے سکیں گی۔

ہر بچے کو ایک ذاتی علاج کی منصوبہ بندی دی جاتی ہے جس کا ہدف ان کی روزانہ کی 15-20 عادتوں کو تبدیل کرنا ہے۔

اس پروگرام پر عمل بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے پورے اہل خانہ کو بھی کرنا پڑھتا ہے۔تحقیق کے مطابق اس پروگرام پر عمل کرنے کے بعد، 70 فیصد کی مریض اپنے وزن میں کمی لانے کے بعد چار سال کے لیے اپنی وزن کو برقرار رکھا۔ڈاکٹر ہولم ان بچوں کو اس پروگرام میں شامل کرنا چاہتے ہیں جو زیادہ کمپیوٹر اور ٹی وی کا استعمال کرکے اپنا وقت گزارتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 12 گھنٹے ٹی وی دیکھنے کے بجائے ان بچوں کو صرف دو گھنٹوں کے لیے ٹی وی دیکھنے کی اجازت ملنی چاہیے۔چودہ سالہ مائک نیلاسن ’ہولبیک پراجکٹ‘ کے روحِ رواں بن گئے ہیں۔پہلے ان کا وزن 85 کلو گرام تھا لیکن اس پروگرام پر عمل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے وزن سے 23 کلو گرام کم کیا ہے۔ وزن کم کرنے کے بعد اب انھیں سکول میں کوئی تنگ بھی نہیں کرتا۔

دیہات کے علاقے اوگرلوس میں رہنے والے مائک کہتے ہیں: ’پہلے تو یہ پروگرام بہت مشکل لگتا تھا لیکن پھر مجھے اس کی عادت ہو گی اور اب یہ بہت آسان ہے۔ میں بہت اداس رہتا تھا کیونکہ مجھے بہت تنگ کیا جاتا تھا۔ لیکن اب میرا وزن کم ہو گیا ہے۔ میں زیادہ خوش رہتا ہوں اور میرے میں توانائی بھی ہے۔رات کے کھانے میں، مائیک نے پہلے کی طرح تین حصوں کے بجائے صرف ایک حصہ کھایا اور پینے میں صرف پانی پیا۔اور رات کو بارش ہونے کے باوجود وہ باہر دوڑنے کے لیے بھی نکلے۔جیسے کہ ڈاکٹر ہولم کا کہنا ہے، یہ پروگرام آسان نہیں ہے۔ لیکن اس کے نتائج سے اطمینان بخش ہے۔

متعلقہ عنوان :