نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز اپنی فارم کیش کرانے کا وقت ہے، احمد شہزاد ،

آسٹریلیا کے خلاف کامیابی نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے،نیوزی لینڈ کے باوٴلرز آسٹریلوی باوٴلرز کی طرح تیز نہیں مگران کی نپی تلی باوٴلنگ اور پھرتیلی فیلڈنگ کے سامنے سینچری آسان نہ تھی، اوپنر بیٹسمین ، دو سینچریا ں بنانے کے بعد2011 میں ٹیم سے باہر ہونا بہت تکلیف دہ دور تھا” کارکردگی کے باوجود ڈراپ کیے جانے پر مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی تھی،ٹیم سے باہر رہ کر بہت کچھ سیکھا۔ اسی دور میں اپنے پرائے کا بھی اندازہ ہوا،مجھے چیلنجز پسند ہیں، انٹرویو

پیر 10 نومبر 2014 20:34

ابو ظہبی ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10نومبر 2014ء ) سیزن کی دوسری سینچری بنانے والے پاکستانی اوپنر احمد شہزاد کہتے ہیں کہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز اپنی فارم کیش کرانے کا وقت ہے۔ احمد کے بقول آسٹریلیا کے خلاف کامیابی نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔احمد شہزاد نے نیوزی لینڈ کے خلاف شیخ زید اسٹیڈیم میں پہلے ٹیسٹ میں ہٹ وکٹ ہونے سے پہلے ایک سو چھہتر رنز کی یادگار اننگز کھیلی۔

دو برس تک سلیکٹرز کے سامنے جگر آزمانے والے احمد کو ٹیم میں واپسی ایسی راس آئی ہے کہ وہ گزشتہ بارہ ماہ میں بین الاقوامی کرکٹ میں سات سینچریاں داغ چکے ہیں۔ابوظہبی میں غیر ملکی خبررساں ادارے کو انٹرویو میں احمد شہزاد نے کہا کہ نیوزی لینڈ کے باوٴلرز آسٹریلوی باوٴلرز کی طرح تیز نہیں مگران کی نپی تلی باوٴلنگ اور پھرتیلی فیلڈنگ کے سامنے سینچری آسان نہ تھی۔

(جاری ہے)

”میں نے ٹیم کی ضرورت کے مطابق سر جھکا کر بیٹنگ کی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز پاکستانی ٹیم اور میرے لیے فارم کو کیش کرانے کا بہترین وقت ہے۔“احمد شہزاد مزید کہتے ہیں کہ دو سینچریاں بنانے کے بعد دوہزار گیارہ میں ٹیم سے باہر ہونا بہت تکلیف دہ دور تھا۔” کارکردگی کے باوجود ڈراپ کیے جانے پر مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی تھی۔ میں چھپ چھپ رویا کرتا تھا۔

کرکٹ میری زندگی ہے اور میں نے تہیہ کیا تھا کہ مجھے اپنی زندگی واپس لینی ہے۔ میں نے ٹیم سے باہر رہ کر بہت کچھ سیکھا۔ اسی دور میں اپنے پرائے کا بھی اندازہ ہوا۔ اس لیے جب ٹیم میں واپس آیا تو اپنے آپ سے کہا کہ اب باہر ہونے کی نوبت نہیں آنے دوں گا۔“احمد شہزاد پاکستان کے واحد کھلاڑی ہیں جو ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی ٹیموں کے مستقل رکن ہیں۔

احمد کہتے ہیں کہ تینوں فارمیٹس کھیلنا جان جوکھوں کا کام ہے۔”میں زندگی سے محظوظ ہونے والا شخص ہوں اور لوگ مجھے صرف اسی حوالے سے جانتے ہیں مگر ان سینچریوں کے پیچھے جو خون پسینہ ایک کرتا ہوں تصویر کے دوسرے رخ کا کسی کو اندازہ نہیں۔“احمد شہزاد کہتے ہیں کہ کرکٹ بہت زیادہ اور مشکل ہو گئی ہے۔ پرانے زمانے میں ایک سینچری کی یاد مہینوں رہتی تھی اب کرکٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے سینچری کے بعد دو اننگز بری جائیں تو پچھلی کارکردگی ایک ہفتے میں ہی فراموش کردی جاتی ہے۔

اب کرکٹ ایڈاوانس ہو گئی ہے۔ بطور بیٹسمین ہرپہلو سے لڑنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے بڑھ چڑھ کر سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے چیلنجز پسند ہیں۔“پاکستان ٹیم کی حالیہ فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے احمد کہتے ہیں پہلے ہم اچھا کھیل کر بھی ہار رہے تھے۔ دورہ سری لنکا کے بعد سب نے سرجوڑ کر ازسر نو سوچنا شروع کیا۔ دماغ سوزی کی اور آسٹریلیا سیریز نے سب کچھ بدل دیا۔ پاکستانی ٹیم بلند مقام پہنچ چکی ہے۔ اب اصل امتحان اس اعلیٰ معیار کو برقرا رکھنا ہو گا۔

متعلقہ عنوان :